انتخابی عمل پر چھائی غیریقینی کی فضا


الیکشن کمیشن کی جانب سے 30 اپریل کو منعقد ہونیوالے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے شیڈول جاری ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی وصولی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جو آج 14 مارچ کو مکمل ہو جائیگا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے کل 15 مارچ کو امیدواروں کی ابتدائی فہرست جاری کر دی جائیگی۔ عمومی طور پر تو انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے اجراءکی تاریخ سے قبل اپنے اپنے امیدواروں کا فیصلہ کرکے انہیں پارٹی ٹکٹ جاری کردیئے جاتے ہیں مگر پنجاب اسمبلی کے موجودہ انتخابات کے حوالے سے صورتحال یکسر مختلف نظر آرہی ہے اور حکمران جماعتوں کے علاوہ اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے بھی ابھی تک کسی امیدوار کو پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا جس سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ابھی تک انتخابات کے مقررہ تاریخ پر انعقاد کا یقین نہیں اور وہ گومگو کا شکار ہو کر اپنے امیدواروں کے بارے میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں کرپا رہیں۔ اسکے برعکس حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی قیادتیں بدستور ایک دوسرے کیخلاف بلیم گیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت عمران خان اور پی ٹی آئی کے دوسرے قائدین کیخلاف مقدمات درج کرانے اور پی ٹی آئی کی انتخابی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے اور وفاقی حکومت کی جانب سے قطعی طور پر ایسا کوئی عندیہ نہیں مل رہا جس سے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کا یقین ہو سکے۔ خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کی تو ابھی تک تاریخ کا ہی تعین نہیں ہو پایا۔ الیکشن کمیشن نے اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے آج 14 مارچ کو پنجاب کی نگران حکومت اور گورنر کے پی کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے جس میں انتخابات کے انتظامات اور پولنگ سٹاف کے علاوہ امن و امان کی صورتحال کا جائزہ بھی لیا جائیگا۔ دوسری جانب ملک کے تمام انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے مشترکہ طور پر وفاقی حکومت کو بھجوائی گئی اپنی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے سرگرم ہونے کے باعث انتخابی مہم اور پولنگ کے دوران دہشت گردی کی وارداتیں ہو سکتی ہیں اس لئے ان حالات میں انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جو سپریم کورٹ کی واضح ہدایت اور آئینی تقاضے کے باوجود پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے 90 دن کے اندر انتخابات کو مخدوش بنا رہی ہے۔ اس صورتحال سے یقیناً جمہوریت کی عملداری پر زد پڑنے کا بھی اندیشہ رہے گا اس لئے سیاسی قیادتوں کو کم از کم سسٹم کی بقاءو استحکام کی خاطر اپنی اپنی انائیں چھوڑ کر اور بلیم گیم سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے اور عام انتخابات کے حوالے سے ملک کے بہترین مفاد کو پیش نظر رکھ کر تمام اسمبلیوں کے ایک ہی دن انتخابات پر افہام و تفہیم کرلینی چاہیے۔ یہ بعدازاں ممکنہ طور پر بحالی¿ جمہوریت کا طویل سفر طے کرنے سے تو بہرحال بہتر ہوگا۔ 

ای پیپر دی نیشن