توشہ خانہ: بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے

Mar 14, 2023


توشہ خانہ کا 2002ءسے 2023ءتک کا 21سالہ ریکارڈ سامنے آنے سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ ایک دوسرے کے خلاف دن رات بیانات دینے اور تقریریں کرنے والے سیاسی قائدین اپنا گھر بھرنے کے معاملے میں یکساں ہی ہیں۔ کابینہ ڈویژن چار سو چھیالیس صفحات پر مشتمل جو ریکارڈ منظر عام پر لائی ہے اس کے مطابق سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سب سے زیادہ تحائف، 181 ، تحائف ملے اور ان کے بعد سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف دوسرے نمبر پر رہے جنھیں 126 تحائف ملے۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس دوران سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو 112، سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے قائد نوازشریف کو 55، سابق وزیراعظم شاہد خاقان کو27 تحائف موصول ہوئے۔
ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اپنی دولت کے حوالے سے شہرت رکھنے والے افراد نے بھی نہایت معمولی قسم کے تحائف مفت رکھ لیے ۔ صابن، چاکلیٹ، شہد، اناناس اور ڈنر سیٹ جیسے تحفوں کے بارے میں بھی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ کس کس نے انھیں کیسے حاصل کیا۔ توشہ خانہ سے تحائف لینے والوں میں کئی صحافیوں، سابق وفاقی وزرائ، فوجی عہدیداران اور بیورو کریٹوں کے نام بھی شامل ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سیاسی قیادت نے قانون سازی کے ذریعے نہ صرف اپنے گھر بھرنے کا انتظام کیا ہوا ہے بلکہ اپنے اردگرد موجود ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے بھی راستہ نکالے ہوئے ہیں جو ان کے خلاف بات کرسکتے ہیں۔ اس نظام سے ہر طاقتور فائدہ اٹھا سکتا ہے، اٹھاتا رہا ہے اور اٹھا رہا ہے لیکن بس عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ علامتی حیثیت کے سوا کوئی پہچان نہیں رکھتے۔
عمران خان نے ماضی میں توشہ خانہ تحائف کے معاملے کو اچھالتے ہوئے کہا کہ یہ تحائف مختلف عہدیداروں کو ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں ملے بلکہ ان کے عہدے کی وجہ سے دیے گئے لیکن خود انھوں نے توشہ خانہ سے جو تحائف لیے ان کی تفصیل حیران کن ہے۔ ریکارڈ کے مطابق، عمران خان نے ایک عدد ڈائمنڈ گولڈگھڑی مالیت ساڑھے 8 کروڑ روپے، کلف لنکس مالیت 56لاکھ 70 ہزار، ایک عدد پین مالیت 15 لاکھ، ایک عدد انگوٹھی مالیت 87 لاکھ 5 ہزار ہے ، تمام چیزیں 2 کروڑ ایک لاکھ 78 ہزار روپے میں خریدیں۔ اس کے علاوہ، عود کی لکڑی کا بکس اور2 پرفیوم مالیت 5 لاکھ روپے جو بغیر ادائیگی کے حاصل کی گئیں، ایک عدد رولیکس گھڑی مالیت 15 لاکھ روپے صرف2 لاکھ 94 ہزار روپے ادا کرکے حاصل کی گئی۔ عمران خان نے ایک اور رولیکس گھڑی مالیت9 لاکھ روپے، ایک اور لیڈیزرولیکس گھڑی مالیت 4 لاکھ، ایک آئی فون مالیت 2 لاکھ 10 ہزار، دو جینٹس سوٹس مالیت 30 ہزار،4 عدد پرفیوم مالیت 35 ہزار،30 ہزار،26ہزار،40 ہزار، ایک پرس مالیت 6ہزار،ایک لیڈیز پرس مالیت18 ہزار، ایک عدد بال پین مالیت28 ہزار روپے ہے ، صرف3 لاکھ 38 ہزار 600 روپے اداکرکے حاصل کیے گئے۔عمران خان نے سب سے زیادہ اور قیمتی تحفے وصول ہی نہیں کئے بلکہ ان تحائف کو اپنا منفعت بخش کاروبار بھی بنایا۔ ملک کی اصل بدنامی یہ تحائف مارکیٹ میں دام لگوا کر فروخت کرنے کے باعث ہوئی۔
اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی حلقے اس بات پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں کہ کس کے سیاسی قائد نے توشہ خانہ سے کون سی شے کتنے میں لی۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے اپنے سیاسی رہنما نے اس سلسلے میں کیا گل کھلائے۔یہی وہ معاملہ ہے جس کا سیاسی قیادت سب سے زیادہ ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے۔ انھیں اندازہ ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے عوام اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے لیڈر کی غلطیوں پر اس کا محاسبہ کرسکیں، لہٰذا سیاسی رہنما دن رات اپنے پیروکاروں کے ساتھ اپنے مخالفین کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور اپنے حق میں صفائیاں دیتے ہیں۔ عوام بھی ان کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں اور پھر ہر جگہ اپنے لیڈر کے مخالف سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں سے دست و گریباں ہوتے یا بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی سب کی وجہ سے ہمارے ملک میں احتساب کا کوئی بھی مستحکم نظام وجود میں نہیں آسکتا کیونکہ ہر سیاسی قائد نے اپنے اردگرد اپنے چاہنے والوں کا ایک ایسا حلقہ بنا رکھا ہے جو ہر حالت میں اپنے قائد کا دفاع اپنا فرض سمجھتا ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ توشہ خانہ کا ریکارڈ منظر عام پر لا کر عوام کو بتایا گیا ہے کہ کس سیاسی رہنما یا عہدیدار نے کیا کیا اور کیسے کیسے حاصل کیا۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکنا چاہیے۔ ایک تو 1947ءسے اب تک کا توشہ خانہ کا تمام ریکارڈ سامنے لانا چاہیے اور جس جس نے بھی توشہ خانہ سے تحائف حاصل کئے ہیں ان سب کے نام بلاامتیاز منظرعام پر لائے جانے چاہئیں تاکہ عوام کو پتا ہو کہ کس کس نے کیا کیا لیا۔ مزید یہ کہ قانون سازی کے ذریعے یہ سلسلہ بند کیا جانا چاہیے کہ اونے پونے داموں میں ایک شے خرید کر اسے کئی گنا قیمت لے کر کہیں اور فروخت کردیا جائے۔ ریکارڈ منظر عام پر آنے سے تو دوسرے ملکوں سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے البتہ ایک تحفے کو سستے داموں خرید کر آگے بیچنے دینے سے تعلقات ضرور بگڑسکتے ہیں۔

مزیدخبریں