پاکستان روس سے 50 ڈالر فی بیرل تیل لینے کے لیے کوشاں
صرف کوشش کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس گوہر مقصود کو پانے کے لیے بے قرار ہرن کی طرح تیز رفتار قلانچیں بھی بھرنا ہوں گی۔ یہ سیاہ مادہ جسے عالمی ماہرین بلیک گولڈ کہتے ہیں ہمارے ہاں سونے کی لنکا جیسی قدر و قیمت اختیار کر چکا ہے۔ اگر موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ہنومان آ کر ان کی لنکا کو نہ ڈھائے تو اسے ہر قیمت پر روس سے سستا تیل حاصل کرنے کے لیے ایک آبرومندانہ معاہدہ کرنا ہو گا تاکہ آنے والے الیکشن میں بدترین ہزیمت سے بچنے کی کوئی راہ نکل سکے۔ ایسا کرنا ممکن ہے بس ہمارے روایتی کمیشن خور مافیاز سے اس سارے عمل کو دور رکھنا ہو گا اور محب وطن ٹیم کی مدد سے یہ سارا عمل مکمل کرنا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ پھر وہی کمیشن خور مافیا کم قیمت کی آڑ میں اپنی دیہاڑیاں لگانے میں کامیاب ہوجائے اور غریبوں کو ملنے والا فائدہ خود سمیٹ لے۔ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ یہ قیمت جی سیون ممالک کی مقرر کردہ قیمت سے 10 فیصد کم ہے۔ اس طرح کم از کم پیٹرولیم کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور عوام کا ہائی ہوتا پارہ کچھ کم ہو گا۔ اسی طرح اگر حکومت کمیشن مافیاز کی کمر توڑ نے کیلئے کھانے پینے کی اشیاءجن کے نرخ آسمان کو چُھو رہے ہیں اور غریب لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پڑوسی ممالک سے ارزاں نرخوں پر درآمد کا بندوبست کر کے ان کے نرخوں میں کمی لائے تو یہ بھی عوام کے غیض و غصب کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو پھر سب جانتے ہیں کہ آنےوالے الیکشن میں پی ڈی ایم کے ڈبوں سے ووٹوں کی بجائے صرف ہوا نکلے گی۔ اس بات کا حکمرانوںکو احساس کرنا ہو گا۔ حکومت کا ہنی مون پیریڈ اب ختم ہو چکا ہے۔ اب اسے عوامی مسائل کے حل کیطرف یعنی اصل گھر گرہستی کیطرف آ جانا چاہیے۔
٭٭٭٭٭
چودھری سرور( ق) لیگ میں شامل ہو گئے
آخر چودھری پرویز الٰہی بھی تو اچھی بھلی اپنی جماعت سمیت (جس کے وہ صوبائی صدر تھے اور چیئرمین بھی) پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان کے بعد ان کی کمی کوئی چودھری ہی پوری کر سکتا تھا۔ سو اب وہ گجرات کے ہی ایک فرزند ارجمند نے پوری کر دی۔ چودھری سرور نے پاکستا ن سے زیادہ برطانیہ میں وقت گزارہ۔ سیاست کی اور نام کمایا۔ وہ برطانوی دارالامرا میں بھی رہے اور ابھی تک ان میں وہی برطانوی صاف ستھری سیاست کی خوبوموجودہ ہے۔ وہ پاکستانی سیاست میں بھی ویسی ہی شائستگی اور دیانتداری کے خواہاں ہیں۔ اب کون انہیں سمجھائے کہ حضرت ہماری سیاسی حالت زار پر بہت پہلے شاعر کہہ چکا ہے
یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نکلا نہ کر
سو چودھری سرور کو شاید اس کا اندازہ نہ تھا۔ یہ وہ سیاسی روش بدلنا چاہتے تھے۔ تبدیلی کی یہ خواہش پہلے انہیں مسلم لیگ (نون) میں لے گئی مگر وہاں انہیں گوہر مطلوب ہاتھ نہ آیا تو وہ کشاں کشاں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے مگر یہاں بھی
ساقی در میخانہ ابھی بند نہ کرنا
جنت کی ہوا شاید مجھے راس نہ آئے
کے مصداق وہ اس تبدیلی کے نام پر سیاست کرنے والی جماعت کی بندشوں اور روایتی سیاست کی تاب نہ لا سکے اور اس سے علیحدہ ہو گئے۔ کچھ عرصہ سیاست سے دور رہنے کے بعد بالاخر اب وہ چودھری شجاعت کی ق لیگ میں داخل دفتر ہو گئے ہیں۔ خدا کرے وہ یہاں جس تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں، اس کا خواب پورا کر سکیں۔ عمر کے جس حصے میں وہ اور چودھری شجاعت ہیں، اس میں اور کچھ نہیں تو کم از کم
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
کے مصداق کم از کم ان دونوں کی سیاسی بیٹھک خوب جمے گی، جو اس لیے بھی موثر ہو گی کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی سیاست سے دونوں باخبر ہیں۔
٭٭٭٭٭
کیرالہ بھارت میں باراتیوں کیلئے سونے کی تھالیوں میں کھانا
بھارت میں اگر کسی نے غربت کی انتہا دیکھنی ہے تو جابجا نظر آئے گی۔ قدم قدم پر مفلسی حِس لطافت کو مٹاتی کچرے دانوں سے انسانوں اور جانوروں کو کھانے پینے کی بچی کھچی اشیاءڈھونڈتی یوں نظر آتی ہے گویا شیر اور بکری کا ایک گھاٹ پر پانی پینا قصے کہانیوں میں نظر آتا ہے۔ اسی بھارت میں امارات اور دولت کا گھمنڈ بھی سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے وہ بھی ایسا کہ دور جدید کی نئی طلسم ہوشربا لکھی جا سکتی ہے۔ ایسا تو قصے کہانیوں میں ہی پڑھا تھا یا سنا تھا کہ کسی بادشاہ یا اس کے وزیر باتدبیر یا کسی راجہ مہاراجہ کے دربار میں اس کی بیٹی یا بیٹے کی شادی کی تقریب میں مہمانوں کو جو عام رعایا تو ہو نہیں سکتی، خاص الخاص امرا ہی ہوں گے، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پیش کیا جاتا تھا۔ پانی یا مشروب پلایا جاتا تھا۔ آج کل ایسا ہوتا کہیں نظر نہیں آتا۔
ہاں عرب حکمران اور وہاں کے امرا اس سے مستثنیٰ ہیں۔ وہاں کے محلات میں سونے چاندی سے مرصع ظروف آج بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس طرح شادی بیاہ کے موقع پر سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال تو یورپ اور امریکہ کے علاوہ جنوبی افریقہ کے حکمرانوں کے ہاں بھی نہیں جبکہ وہاں سونے کی کانیں پائی جاتی ہیں۔ بہرحال یہ سب دکھاوا کسی بھی معاشرہ میں غلط روایات کو فروغ دیتا ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے۔ بھارت میں کروڑوں کنواری لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ماں باپ کے سینے پر بوجھ بنی پڑی ہیں۔ ان خاندانوں پر یہ نمود و نمائش دیکھ کر کیا گزری ہو گی۔ اس کا کچھ اندازہ بھی ہے اس شخص کو جو باراتیوں کو سونے کی تھالیوں میں کھانا پروستا پھر رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
افسوس بابر، شاداب اور شاہین کپتانی کی جنگ میں آمنے سامنے ہیں۔ رمیز راجا
خدا کرے یہ رمیز راجا کی قیاس آرائی ہی ثابت ہو۔ اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم دنیا کی ٹیموں میں بہترین کارکردگی دکھانے والی چند ٹیموں میں شامل ہے۔ پی ایس ایل کے میچوں میں بھی اچھا ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے۔ اب اگر ایک بار پھر اس کھیل میں منحوس سیاست اور گروپ بندی کا بھوت داخل ہو گیا تو پھر ماحول تو کیا اس کھیل کا بھی خانہ خراب ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی رمیز راجا اس وقت پی سی بی کے عہدے سے فراغت کے بعد شاید کافی دل گرفتہ بھی ہیں۔ اس لیے انہیں ڈریسنگ روم میں شدید تناﺅ کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہا ہے۔ بے شک اچھا کھیل پیش کرنے والے کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کپتان کا عہدہ حاصل کرے۔ مگر یاد رکھیں ہر اچھا کھلاڑی اچھا کپتان ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کھلاڑیوں کو کپتان بننے سے زیادہ اپنے کھیل کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ کھیل اچھا ہو گا تو وہ آگے بڑھیں گے۔ کچھ کھلاڑی اور کچھ انتظامی عہدیداروں کو ویسے ہی سیاست کا، گروپ بندی کا چسکا لگا ہوتا ہے وہ ان معاملات کو پراسرار طریقے سے آگے بڑھاتے اور پھیلاتے ہیں۔ اس سے اجتناب ضروری ہے۔ بابر اعظم ، شاداب اور شاہین آفریدی بہت ہی نہیں بہت اچھے اور بڑے کھلاڑی ہیں۔ا نہیں اس معاملے میں گھسیٹنا اچھا نہیں۔ کپتان جو بھی بنے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات کھیل ہے جو اچھا کھیلے گا وہ ہی مقدر کا سکندر کہلائے گا اور عوام کی محبتیں سمیٹے گا جو کپتانی سے زیادہ بڑا انعام ہے۔