اسلام آباد(نا مہ نگار)وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت رانا تنویر نے یونیسیف کے تحت 'ایجوکیشن کانٹ ویٹ مشن' کے نمائندوں کے ساتھ ایک آن لائن میٹنگ کی جس کی سربراہی مسٹر مارٹن بیرینڈز، چیف ہیومینٹیرین لائیزن نے کی۔ رانا تنویر نے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کو متعدد بحرانوں کا سامنا ہے - انہوں نے پاکستان میں تعلیم پر 2022 کے سیلاب کے شدید اثرات پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ 34000 سے زائد سرکاری تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے یا تباہ ہوئے ہیں۔ مزید برآں، سیلاب سے ملک میں کم از کم 2.6 ملین طلبا متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے تعلیم کو پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں تقریبا 10 لاکھ بچے اسکول چھوڑ کر واپس اسکول نہیں جائیں گے۔رانا تنویر نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ہے، حال ہی میں نائیجیریا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اندازے کے مطابق 22.8 ملین بچے سکول سے باہر ہیں۔ ان سکولوں سے باہر بچوں کی اکثریت لڑکیوں کی ہے، جو خاص طور پر سیکنڈری سکول چھوڑ دیتے ہیں، اور ان میں سے 75% سے زیادہ بچے دیہی علاقوں میں ہیں۔ CoVID-19 وبائی مرض نے ان چیلنجوں کو بہت زیادہ مشکل بنا دیا ہے، اس وبا کے دوران کم از کم 500,000 مزید بچے سکولوں سے باہر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور چیلنج یہ ہے کہ سکول میں بچے اچھی طرح سے نہیں سیکھ رہے ہیں۔ پاکستان میں 4 میں سے 3 بچے 10 سال کی عمر تک ایک سادہ سا جملہ نہیں پڑھ سکتے۔رانا تنویر نے کہا کہ حکومت پاکستان اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان میں تعلیم پر تاریخی اخراجات کم رہے ہیں اور وہ اسے تبدیل کرنے کے خواہشمند ہیں۔وزیر نے کہا کہ پاکستان میں ترقیاتی شراکت دار بہت فعال رہے ہیں مثال کے طور پر ورلڈ بینک، اے ڈی بی، یونیسکو، یونیسیف وغیرہ، تاہم حالیہ سیلاب کے موجودہ تناظر میں تعلیم کو ہونے والے نقصانات کی کل لاگت کا تخمینہ 780 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ اور فروری 2023 تک پاکستان میں تعلیم کے لیے اقوام متحدہ کی 40 ملین ڈالر کی اپیل میں سےصرف 60 فیصد فنڈز فراہم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کے ساتھ مالی امداد کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کو فوری طور پر پورا کیا جائے کیونکہ ملک کو تعلیم کے شعبے میں شدید بحران کا سامنا ہے۔
رانا تنویر