آغا سید حامد علی شاہ موسوی
تمام مفسرین محققین مورخین اس امرپر متفق ہیں کہ جس قدر شان خاتون جنت کی نبی کریم ؐ کی زبان مبارک سے بیان کی گئی کوئی دوسری ہستی اس کے مثل نہیں ۔ حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’ایک ایسا فرشتہ جو آج کی رات سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا، آج اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ زہرؓ جنتی عورتوں کی سردار اور حسنؓ و حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔(جامع ترمذی ۔ جلد دوم ، مسند احمد بن حنبل ، طبرانی ، مستدرک )
رسول خداؐ حضرت فاطمہ زہراؓ سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ؐ نے فرمایا :بے شک فاطمہ میری شاخ ثمر بار ہے جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے خوشی ہوتی ہے اورجس چیز سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (مسند احمد، مستدرک )حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ زہرا کم سن تھیں تو رسولؐ خدا انہیں اپنی آغوش میں بٹھا لیتے انہیں بوسے دیتے اور فرماتے اے عائشہ ؓ جب میں جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھتا ہوں اس کے دہن سے جنت کے میووں کا لطف لیتا ہوں(مدارج النبوۃ ۔محدث دہلوی بقول امام احمد رضا خان بریلویؒ۔
سیّدہ، زہرہ، طیّبہ، طاہرہ
جانِ احمد ؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام
نجران کے عیسائی جب دلیل سے اسلام کی عظمت کو نہ مانے تو اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ان سے مباہلہ کرو’عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول اللہؐ اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسنؓ اور حسینؓ جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علیؓ جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائی مباہلہ سے دستبردار ہوگئے۔ عیسائیوں کا اسقف اعظم چیخ اٹھا کہ ان سے مباہلہ نہ کرنا اگر ان ہستیوں نے بددعا کردی تو قیامت تک کوئی عیسائی زندہ نہیں بچے گا اگر یہ ہستیاں پہاڑ کو اشارہ کریں گی تو یہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا۔ عیسائی رسول خداؐ علی المرتضیؓ ،حسنین شریفینؓ کو پہلے دیکھ چکے تھے ، یہ سیدہ زہراؓ ہی تھیں جن کے وجود سے جب پنجتن کی بزم مکمل ہوئی تو عیسائیوں کے صاحبان عرفان نے اس خانوادے کی بزرگی و جلالت دیکھ کر اسلام کا مقابلہ کرنے سے توبہ کرلی ۔
حضرت فاطمہؓ کی یہ جلالت و عظمت کامنظر محشر کا میدان بھی دیکھے گاجب سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اس روز نبی ؐ کے ناقہ پر سوار حضرت فاطمہ زہراؓ کی عجب شان ہوگی۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ وحضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ روزقیامت عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا۔ اے محشر والو ! اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی نگاہیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفی ؐ گزر جائیں ۔پس فاطمہ زہراؓ گزر جائیں گی اور آپ کے ساتھ چمکتی بجلیوں کی طرح ستر ہزار خادمائیں ہوں گی۔(فضائل الصحابہ احمد بن حنبل ،کنزالعمال) حضرت معاذ بن جبل نے عرض کیا’’یا رسول اللہ آپ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار ہوکر قیامت کے روز گزریں گے ؟ آپ ؐ نے فرمایا میں اس براق پر سوار ہوں گا جو نبیوں میں سے خصوصی طور پر مجھے عطا ہوگامیری سواری عضباء پر میری بیٹی فاطمہ سوار ہوگی ‘‘(ابن عساکر ،تاریخ دمشق الکبیر،کنز العمال )
حضرت فاطمہ زہراؓ کے وجود سے اسلام نے طبقہ نسواں کو عزت و حرمت بخشی ، زندہ در گور کردی جانے والی بیٹیوں کو فاطمہ زہراؓ کے وجود کی برکت سے عظمت کی معراج مل گئی ۔دنیا میں ہر انسان کی نسل اس کے بیٹے سے ہے لیکن کائنات کی اشرف ترین ہستی سرور کونین حضرت محمد مصطفی ؐ کی نسل کا ذریعہ ان کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا ؓہیں۔حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے ،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا ولی ہوں‘‘حضرت عمر ؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )امام فخر الدین رازی کے مطابق رسول خداؐ کے فرزندان رسول عبد اللہ و قاسم کے انتقال پر رسول کو ابتر کہنے والوں کے طعنے کا جواب بھی حضرت فاطمہ زہرا ہی تھیں جن سے نبیؐ کی نسل چلی۔
تاابد باقی ہے اس دنیا میں اولاد رسول ؐ
سورۂ کوثر کا زندہ معجزہ ہیں فاطمہؓ
ام المونین حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ:’’ اپنے وصال کے وقت رسول اللہؐ نے فاطمہ کو نزدیک بلا کر ان کے کان میں کچھ کہا جس پر وہ رونے لگیں۔اس کے بعد آپ نے پھر سرگوشی کی تو آپ مسکرانے لگیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے سبب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے میرے بابا نے اپنی رحلت کی خبر دی تو میں رونے لگی۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے میں ان سے جاملوں گی تو میں مسکرانے لگی۔(بخاری ، مسلم ، احمد بن حنبل)
اور نبی کریم ؐکی پیش گوئی کے مطابق حضرت فاطمہ زہراؓ اپنے پیارے بابا کی رحلت کے بعد محض 75یا 95دن یا بعض روایات کے مطابق 6ماہ زندہ رہیں ۔نبی کریم ؐ کو جو تحفہ معراج سے اللہ نے دیا تھا وہ بی بی سب سے پہلے اپنے پیارے بابا سے جا ملیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ ایسا گریہ حضرت یعقوب نے بھی اپنے یوسف ؑ کیلئے نہ کیا ہوگا جیسا بنت رسولؐ حضرت فاطمہ زہراؓ نے نبی کریم ؐ کی رحلت کے بعدکیا، ان کی پیاری بیٹی کی دنیا اندھیر ہوگئی ۔جب حضرت فاطمہؓ آقائے دوجہاں حبیب خداؐ ؐ کے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوتیں تو آپ کی کیفیت اس طرح ہوتی کہ قبرِ اَنور کی مبارک مٹی اْٹھا کر آنکھوں پر لگا لیتیں اور حضور ؐ کی یاد میں رو رو کر یہ اَشعار پڑھتیں۔حضرت فاطمہ زہراؓ نبی کریم ؐ کی قمیص سونگھتیں اورگریہ کرتیں بحار الانوار میںروایت ہے کہ جب پیغمبرؐوفات پاگئے تو موذن رسول ؐ حضرت بلالؓنے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن جناب فاطمہؓ نے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے موذن کی اذان سنوںبلالؓ نے جناب فاطمہؓ کے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، جناب فاطمہؓ کو اپنے باپ کے زمانے کی یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فاطمہؓ نے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ ماری اور غش کرگئیں۔(بحار الانوار)
پیغمبر اسلامؐ کی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہراؓ کو کبھی ہنستے ہوئے نہ دیکھا ۔ وصال سے قبل آپ نے وصیّت فرمائی کہ میری میت مکمل پردے(تابوت) میں اٹھائی جائے اور پھر پہلی بار ایسا ہوا ۔عورت جسے آپ کے وجودپاک نے عظمت و رفعت عطا کی آج ایک بار پھر آپ کی سیرت و کردار اور افکار ہی دنیا و آخرت میں نجات پانے اور سرخروہونے کی ضمانت ہے۔
مادر حسنینؓ سیدۂ کونین حضرت فاطمہ زہرہؓ
Mar 14, 2024