منیر احمد یوسفی
حضور نبی کریم ؐکی چار دخترانِ ذیشان ہیں جو سبھی کی سبھی خاتون اوّل اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بطنِ پاک سے آپ ؐ کی پاک بیٹیاں ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم نے سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵۹ میں وضاحت فرمائی ہے ’’اے نبی ؐآپ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے فرما دیں‘‘۔ قرآنِ مجید میںآپ ؐکی بیٹیوں کا ذکر بیٹیاں کرکے فرمایا گیا ہے اگر آپ ؐکی اپنی صرف ایک بیٹی پاک ہوتی تو اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم قرآنِ مجید میں اُس کا ذکر خیر بیٹیاں فرما کر نہ کرتا۔ربِّ ذوالجلال والاکرام کے فرمانِ عالی شان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول کریمؐکی اپنی ہی چار بیٹیاں تھیں جن کے نام ترتیب وار اِس طرح ہیں (۱)حضرت سیّدہ زینب (۲)حضرت سیّدہ رقیہ (۳) حضرت سیّدہ اُم کلثوم اور (۴)حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ۔
قرآنِ مجید کے اِرشادِ عظیم کے مطابق اَیسی لڑکی جو بیوہ عورت کے پہلے شوہر سے ہواور وہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرے تو بیوہ عورت کی پہلے شوہر سے لڑکی دوسرے شوہر کی بیٹی نہیں کہلاتی بلکہ ربیبہ یعنیسوتیلی بیٹی کہلاتی ہے۔ جیسا کہ سورۃ النسآء کی آیتِ مقدسہ نمبر ۲۳ میں فرمایا گیا ہے۔حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓ رسول اللہؐکی پاک بیٹیوں میں سے سب سے چھوٹی شہزادی ہیں۔آپ کا اِسم مبارک ’’فاطمہ‘‘ ہے، آپ کا لقب بتول اور زہرا ہے۔ بتول کا معنی ہے منقطع ہونا‘ کٹ جانا چونکہ آپ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا سے اَلگ تھیں۔ لہٰذا بتول لقب ہوا۔ زہرا بمعنی کلی آپ جنت کی کلی تھیں۔ آپ کے جسم پاک پرجنت کی خوشبو رہتی جسے اللہ کے نبیؐ سونگھا کرتے تھے۔
مختلف روایات کے مطابق آپ اِعلانِ نبوت سے ایک سال یا پانچ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ سیّدہ فاطمہ ابھی بچی ہی تھیں کہ نبی کریمؐ کعبۃ اللہ میں نماز پڑھنے تشریف لے گئے وہاں بہت سے کفّار مشرکین موجود تھے۔ جب رسول اللہ سجدہ میں گئے توعقبہ بن اَبی معیط نے اُونٹ کی اَوجڑی آپ کی پشت مبارک پر لا رکھی‘ نبی کریمؐابھی سجدہ میں تھے حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓآئیں اور اُنہوں نے آپ ؐ کی پشت پر سے اوجڑی کو گرا دیا اور عقبہ بن معیط کے خلاف بددُعا فرمائی۔
حضرت مسور بن مخرمہؓ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’(حضرت) فاطمہ ؓ میرا ٹکڑا ہے جس نے اِنہیں ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا اور ایک روایت میں ہے جو چیز اِنہیں پریشان کرے مجھے پریشان کرتی ہے اور جو اِنہیں تکلیف دے وہ مجھے ستاتا ہے‘‘۔ حضرت سیدہ فاطمہ ؓسر سے پاؤں تک نبی کریمؐ کی ہمشکل اور چال ڈھال ہر وضع قطع میں حضورؐکے مشابہہ تھی ہجرت کے دوسرے سال غزوئہ بدر کے بعد نبی کریم ؐ نے اِن کا نکاح غزوۂ بدر کے بعد غزوۂ اُحد سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی بن طالب کرم اللہ وجہہ الکریم سے کر دیا۔ حضرت فاطمہ زہراؓ اتنی عظمت کی مالک تھیں کہ ان کی شادی کیلئے حکم بھی اللہ کی جانب سے آیا اور ان کی شادی کی تقریب زمین کے ساتھ عرش پر بھی انجام پائی۔حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے :رسول اللہؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی ؓ سے فرمایا :یہ جبرائیل ہے جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے فاطمہ سے تمہاری شادی کردی ہے اورتمہارے نکاح پرچالیس ہزارفرشتوں کو بطور گواہ مجلس نکاح میں شریک کیا گیا ،اورشجرہائے طوبی سے فرمایا :ان پر موتی اوریاقوت نچھاور کرو۔پھر دلکش آنکھوں والی حوریں ان موتیوں اوریاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں تقریب نکاح میں شریک کرنے والے فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے۔ (ریاض النضرہ )
سیّدہ فاطمہؓنے غزوۂ اُحد میںعملاً حصّہ لیا۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر مشہور ہو گئی کہ نبی کریمؐ شہید ہوگئے ہیں۔ سیّدہ میدان جنگ میں پہنچیں اُس وقت حضور ؐغار سے باہر تشریف لے آئے تھے۔ سیّدہ فاطمہؓنے زخموں کو دھویا اور جب دیکھا کہ مبارک خون نہیں تھم رہا تو کھجور کی صف کو جلا کر اُس کی راکھ نورانی زخموں پر رکھی جس سے مبارک خون بند ہوگیا۔حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے‘ ایک بار حضرت سیّدہ فاطمہ بیمار ہوگئیںنبی کریم نے پوچھا پیاری بیٹی کیا حال ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا مجھے تکلیف ہی ہے اور مزید برآں یہ کہ ہمارے ہاں کھانے کے لئے کوئی چیز بھی نہیں۔ یہ صبر و اِستقامت اور توکل تھا۔آپ ؐنے فرمایا: اے میری پیاری بیٹی! تم اِس پر خوش نہیں ہو کہ تم نساء العالمین کی سیّدہ ہو۔ حضرت سیّدہ فاطمہ ؓ نے عرض کیا‘ یا رسول اللہؐ بی بی مریم کدھر گئیں؟ فرمایا: وہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں اور تم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے شوہر دنیا اور آخرت میں سیّد ہے۔
’’حضرت سیّدہ مریم ؑکا عزّت و مرتبہ صرف ایک نسبت سے ثابت ہے کہ وہ حضرت سیّدنا عیسیٰ ؑ کی والدہ ماجدہ ہیں مگر حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓکی عزت و مرتبہ تین نسبتوں سے ثابت ہے۔ ایک تو آپ حضور رحمۃ للعالمین اولین اور آخرین ؐکی آنکھوں کا نور اور خوش بخت ہیں۔ وہ ہستی کہ جنہوں نے روئے زمین کے جسم میں از سر نو جان ڈالی اور ایک نئے نظام اور نئے عہد کی تخلیق فرمائی۔ آپ کی دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ اُس ہستی کی رفیقۂ حیات ہیں جو مرتضیٰ بھی ہیں‘ مشکل کشاء بھی ہیں اور شیرِ خدا بھی۔ بادشاہ وقت ہوتے ہوئے بھی اُن کا شاہی دربار ایک جھونپڑی پر مشتمل ہے۔ حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓ کی عزت و عظمت کی تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ حسنین کریمین ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں جن میں سے ایک رونقِ عشق اور مرکز رعنائی عشق ہیں اور دوسرے اِسی قافلہ عشقِ الٰہی کے سالار و میرِ کارواں ہیں۔حضرت فاطمہ ؓ اللہ کے حضور بے مثل مقام رکھتی ہیں جب مسجد نبوی میں تمام گھروں کے دروازے بند کر دیئے گئے تو واحد گھر جس کا دروازہ مسجد نبوی میں کھلا رہنے دیا گیا وہ حضرت فاطمہ زہراؓ کا ہی تھا۔
حضرت سیّدہ فاطمہؓ سے ایک روز امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓنے فرمایا: اللہ (ل) کی قسم پانی کھینچ کھینچ کر میرے سینے میں تکلیف ہو گئی ہے۔ نبی اللہؐ کے پاس اللہ (گ) نے جنگی قیدی (غلام و لونڈیاں) بھیجے تھے۔اس کے باوجود آپؐ سے اپنی پیاری بیٹی بھی کچھ مانگتے ہوئے شرم محسوس کرتیں۔چنانچہ نبی کریمؐکی خدمت میں ایک بار دونوں حاضر ہوئے ،خاتونِ جنت ؓبولیں: چکی پیستے پیستے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔،حضرت علی ؓ نے بھی اپنا ماجرہ بیان کیا کہ آپ ؐ اپنے قیدیوں میں کوئی خدمت گار عطا فرمادیں۔ آپؐ نے فرمایا: یہ خدام تمہارے لئے نہیں ہیں۔ میں اہل صفہ غربا صحابہ کرامؓ کو بلائوں گا جن کے پیٹ بھوک سے چمٹے ہوئے ہیں۔ مَیں اِن غلاموں لونڈیوں کو فروخت کر کے اُن کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔ اَمیر المؤمنین حضرت سیّدنا علیؓ اور خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمہ ؓ لوٹ آئے۔
نبی کریم ایک روز ؐخود حضرت فاطمۃالزہرہؓ کے ہاں تشریف لے گئے جبکہ اہل خانہ اپنے بستر میں سونے کے لئے جا چکے تھے۔ بستر کی چادر اتنی چھوٹی تھی کہ جب اُس کو سر پر لیتے تو پائوں کھل جاتے اور جب پائوں پر ڈالتے تو سروں سے ہٹ جاتی تھی۔ حضور نبی کریم رئُ وْف ورحیم ؐکی تشریف آوری پر دونوں جلدی سے اُٹھے تو آپؐنے فرمایا: اپنی جگہ پر پڑے رہو۔ پھر فرمایا: جو تم نے مجھ سے مانگا تھا کیا تمہیں اُس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ عرض کرنے لگے: جی حضور! آپ ؐنے اِرشادِ مبارک فرمایا: کچھ کلمات حضرت جبریلؑ نے مجھے بتائے ہیں۔ فرمایا: ہر نماز کے بعد دس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ دس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور دس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ پھر جب سونے کے لئے اپنے بستر پر جائو تو تینتیس (۳۳) بار سُبْحَانَ اللّٰہِ تینتیس بار اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس بار اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھ لیا کرو۔ اَمیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں: جب سے مَیں نے رسول اللہ ؐ سے یہ کلمات سنے ہیں‘ اللہ (ل) کی قسم! اُنہیں کبھی ترک نہیں کیا۔
نبی اللہؐ کو اپنے اہل میں حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہؓسب سے پیاری تھیں۔ جب سفر پر تشریف لے جایا کرتے تھے تو آخیر میں اُن سے مل کر جاتے ، واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے پیاری بیٹی سے ملتے۔اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: حضرت فاطمہؓسے بڑھ کر کوئی بھی رسول اللہؐ کے مشابہ بات چیت میں نہ تھا۔ وہ جب نبی ؐکے ہاں آیا کرتیں تو نبی ؐ آگے بڑھتے ‘پیشانی پر بوسہ دیتے، مرحبا فرمایا کرتے ۔
حضرت اَسماء بنت عمیسؓ کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت سیّدہ فاطمہؓنے اُن سے کہا کہ عورتوں کا جنازہ جس طرح اَب لے جایا جاتا ہے، مجھے تو یہ اَچھا معلوم نہیں ہوتا۔ جنازے کے اُوپر ایک چادر ڈال دیتے ہیں جس میں سے اُس کا پیکر نظر آتا رہتا ہے۔ حضرت اَسماء نے آپ کو حبشہ کا دستور بتایاپھر کھجور کی تازہ شاخیں منگوا کر چارپائی پر لگائی گئیں اور اُن پر کپڑا ڈال دیا گیا۔ سیّدہ فاطمہ نے اس طریقہ کو موزوں فرمایا۔ رسول اللہ ؐکے وصال فرمانے کے چھ ماہ بعد ۳ رمضان المبارک ۱۱ھ کو جب آپ بھی دنیا سے پردہ فرما گئیںتو حضرت سیّدنا عباسؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جنت البقیع میں رات کے وقت تدفین ہوئی، حضرت علی‘ حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباسؓ نے قبر میں اُتارا۔
حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرہ ؓکے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ حضرت سیّدنا امام حسن اور حضرت سیّدنا امام حسین ؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔حضرت سیّدہ ام کلثوم اور حضرت سیّدہ زینب ؓ۔ حضرت سیّدنا محسنؓ اور حضرت سیّدہ رقیہؓ بچپن میں ہی اِنتقال کر گئے تھے۔ آپ کی اَولادِ پاک میں سے سوائے حضرات حسنین کریمینؓ کے کسی کی نسل پاک جاری نہیں ہوئی۔
خاتون جنت حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ
Mar 14, 2024