جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد خان ایوانِ بالا یا سینیٹ میں اپنے عہدے کی چھے سالہ مدت پوری کر کے سبکدوش ہوگئے ہیں لیکن وہ اپنے عمل سے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کر گئے ہیں جس کی نظیر ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ یہ چھے سال سینیٹر مشتاق کے لیے ایک بہت بڑا امتحان تھے اور انھوں نے اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب رہے ہیں۔ میں سینیٹر مشتاق سے کبھی نہیں ملا لیکن سینیٹ میں ان کی تقریروں اور مختلف معاملات و مسائل کے سلسلے میں کی جانے والی ان کی کوششوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک سچے اور کھرے انسان ہیں اور پاکستان اس وقت مسائل کے جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کے لیے ہمیں ایسے افراد کی اشد ضرورت ہے جو اتنے اجلے کردار کے حامل ہوں کہ قبیلے کی آنکھ کا تارا بننے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہوں۔
سینیٹ میں اپنی الوداعی تقریر کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے بتایا کہ گزشتہ چھے برسوں کے دوران انھوں نے کوئی کاروبار نہیں کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اس کام پر مرکوز رکھنا چاہتے تھے جس کے لیے انھیں منتخب کیا گیا تھا۔ پاکستانی پارلیمان میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ہوں گی کہ کسی شخص نے بطور رکن پارلیمان اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کو داؤ پر لگا دیا ہو یا ان کی پروا نہ کی ہو بلکہ ہمارے ہاں تو لوگ کروڑوں روپے خرچ کر کے اسمبلی یا سینیٹ کے رکن بنتے ہی اس لیے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے اپنے ذاتی، گروہی اور کاروباری مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکیں اور اسمبلیوں اور سینیٹ میں مختلف مواقع پر ارکان کو جس طرح خریدا جاتا ہے یا حکومتی جماعت یا جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اس سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔
اپنی الوداعی تقریر میں سینیٹر مشتاق نے آئین پاکستان میں درج وہ حلف نامہ پڑھ کر سنایا جس کے ذریعے وہ رکن سینیٹ بنے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کا حلف نامہ ایک جیسا ہی ہے اور معمولی سی تبدیلی کے ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا حلف نامہ بھی یہی ہے جو کچھ یوں ہے: ’’میں ۔۔۔۔۔۔۔ صدقِ دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوصِ نیت سے پاکستان کا حامی و وفادار ہوں گا؛ کہ بحیثیت رکن قومی اسمبلی (یا سینیٹ) میں اپنے فرائض و کار ہائے منصبی ایمانداری، اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور، قانون اور اسمبلی (یا سینیٹ) کے قواعد کے مطابق اورہمیشہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، بہبودی اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا؛ کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے؛ اور یہ کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔‘‘
اگر پارلیمان کا ہر رکن واقعی خود کو اس حلف کا پابند سمجھے یا وہ اس کی پاسداری کرے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کرے لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پارلیمان کے زیادہ تر ارکان اس حلف نامے کو اسی طرح پڑھتے ہیں جیسے چھوٹے بچے سکول کی اسمبلی کے دوران کورس میں قومی ترانہ پڑھتے ہیں، یعنی انھیں یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب کیا ہے۔ اسی طرح زیادہ تر ارکانِ پارلیمان کا ایوان اور اس کی کارروائی وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، وہ اپنے گروہ یا جماعت کے ساتھ وفاداری کے اظہار کے لیے ایوان میں اپنی حاضری کو یقینی بناتے ہیں اور ان کا ہدف بس یہی ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کی قیادت ان سے خوش اور مطمئن رہے۔ اندریں حالات، ان سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ پارلیمان میں ایک مخصوص ایجنڈے سے ہٹ کر کچھ کہنے یا کرنے کی جرأت کریں گے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان اگر چاہتے تو وہ بھی دیگر ارکان کی طرح رکن پارلیمان کے طور پر گزاری جانے والی مدت کے دوران اپنی ساری توجہ ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ تک محدود رکھتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ انھوں نے ایسے اہم اور سنجیدہ موضوعات پر سینیٹ میں کھل کر بات کی جن کا ذکر کرنے کی بھی شاید کوئی اور جرأت نہ کرسکتا۔ اپنی الوداعی تقریر میں انھوں نے بتایا کہ انھیں دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا؛ ظاہر ہے ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک میں مخصوص طبقات یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص ایک خاص حد سے آگے بڑھ کر سچ بولے۔ خیر، سینیٹر مشتاق نے اپنی گفتار اور اپنے کردار سے اقبال کے اس شعر پر مہرِ تصدیق ثبت کی کہ
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہمیں تمام صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایسے بہت سے ارکان کی ضرورت ہے جو سینیٹر مشتاق کی طرح ذاتی و گروہی مفادات اور خوف و لالچ سے بالاتر ہو کر پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیں اور اپنی رکنیت کے حلف نامے کو صرف پڑھیں نہ بلکہ اس پر غور کریں کہ وہ ان سے کیا تقاضا کرتا ہے اور پھر پورے دل سے اس پر عمل بھی کر کے یہ ثابت کریں کہ وہ اپنے فرائض ’پاکستان کی خودمختاری، سالمیت، استحکام، بہبودی اور خوشحالی کی خاطر انجام‘ دے رہے ہیں۔