کہتے ہیں موسیقی روح کی غذا ہے کتاب روح اور بدن دونوں کی غذا ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا‘‘ غالباً اس کا اشارہ اس آدمی کی طرف ہے جو کتاب دوست نہیں۔ کتاب ہی وہ میڈیم ہے جو آدمی کو انسان بناتا ہے غالباً اسی لئے زمین کی مخلوق کا ناطہ کائنات کی وسعتوں سے جوڑنے کیلئے خدا نے بھی کتاب کو ہی ذریعہ بنایا ہے۔ 9 برس بعد جامعہ پنجاب میں کتاب میلے کا انعقاد ہوا جو طالبعلموں، کتاب دوست عام انسانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسوں کیلئے بھی (جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہمارے معاشرے کا بندھن کتابوں سے ٹوٹ چکا ہے) ایک پیغامِ تازہ تھا۔
دو الگ الگ دوستوں کی کوششوں سے ہمارا نام بھی ان افراد میں شامل ہو گیا جو وائس چانسلر صاحب کے مہمان ہوا کرتے ہیں (دونوں ذرائع کا بے حد شکریہ) مہمان ہونے کی حامی بھی بھر لی لیکن عین وقت پہ دل نہیں مانا اور یہ سوچ کر اکیلے اور گمنام طریقے سے جانے کا فیصلہ کیا کہ ہم تو کتابوں کو مہمان بنانے کے عادی ہیں ان کے مہمان کیسے بن جائیں؟
چنانچہ انتہائی رازداری سے اس اطمینان کے ساتھ کہ ہمارے دوست احباب اگلی منزلوں کو روانہ ہو چکے ہوں گے بڑے آرام سے گھر سے نکلے اور ’’کتاب گردی‘‘ شروع کر دی۔ آپ لاکھ چھپیں پھر بھی محبت کرنیوالے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ کئی دوستوں کے بک سٹالوں کی طرح فاروق چوہان اور علامہ عبدالستار عاصم کے سٹال سے بھی بچ کر نکلنا چاہا لیکن دونوں حضرات نے بڑی محبت سے دبوچ لیا۔ سٹال پر بڑی عزت سے بٹھا لیا۔
علامہ عبدالستار عاصم نے بتایا کہ ’’آج تیسرا اور آخری روز ہے۔ پچھلے دو دنوں میں 80 ہزار کتب فروخت ہو چکی ہیں، تو ہمارے کانوں کو یقین نہ آیا۔ آٹھ ہزار؟ ہم نے عالم خواب کے سے انداز میں دہرایا تو علامہ صاحب نے فوراً تصحیح کرتے ہوئے فرمایا 80 ہزار جناب، پورے 80 ہزار۔ یقیناً وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر خالد محمود اور اس میلے کے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔ علم دوستی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ 9 برس بعد عظیم الشان کتاب میلہ منعقد کرا دیا، انتہائی رعایتی قیمت پر کتابیں علم کی پیاس بجھانے والوں کو ملیں اور 3 روز میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب کتاب فروخت ہو گئیں۔ اگر ہم جامعہ پنجاب کا ذکر نہ کرتے اور تحریر ایسے شروع کرتے کہ ایک یونیورسٹی میں کتاب میلہ منعقد ہوا اور وہاں 3 روز میں ڈیڑھ لاکھ کتب فروخت ہو گئیں تو یقیناً سب کے دھیان میں کسی ترقی یافتہ یورپی یا امریکی یونیورسٹی کا خاکہ آ جاتا اور ہر کوئی کہنے لگتا کہ ’’دیکھا قومیں ایسے ترقی کرتی ہیں‘‘ اور ایک ہم ہیں کہ کتابوں سے انتہائی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ دور چلے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ ………
پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلہ میں بڑی معیاری کتب سٹالز پر موجود تھیں جو ہم جیسے لوگوں کے لیئے، جو سوچتے ہی ایسے ہیں کہ ’’وہاں کیا ہوگا؟، ایک پیار بھرا طمانچہ تھیں اس پیغام کے ساتھ کہ ’’میاں ہوش میں آؤ اور دیکھ لو اگر تمہارے ملک میں بھی مواقع فراہم کئے جائیں تو کتاب سے محبت کرنے والے یہاں بھی کسی ترقی یافتہ معاشرے سے کم نہیں۔
ہم تیسرے اور آخری روز کتاب میلہ دیکھنے گئے تھے اور جس بات نے بہت ساری دوسری باتوں کے ساتھ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ کتاب میلے میں طالبعلم ہی نہیں بلکہ خاندانوں کے خاندان موجود تھے۔ گھر گرہستی سنبھالنے والی خواتین بھی معقول تعداد میں موجود تھیں۔ ڈاکٹر خالد محمود صاحب، کتاب میلہ یقیناً اس خوشگوار تازہ ہوا کے جھونکے کی ابتداء ہے جو آپ طالبعلموں اور معاشرے کو مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ پچھلا ہفتہ ہمارا زیادہ تر جامعات میں ہی گزرا، اس دوران ہم قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کا ایک چکر بھی لگا آئے۔ وہاں ایک بڑے سکالر عمران یوسف صاحب کا لیکچر تھا۔ خوب بولے، مسلمانوں کے زوال کی وجوہات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ بھائی قاسم علی شاہ بھی قوم کے نونہالوں کی تربیت میں اپنا بے لوث حصہ ڈال رہے ہیں اور اگر انہیں اس کی داد نہ دی جائے تو انتہائی کنجوسی کی بات ہو گی انکی فاؤنڈیشن بغیر کسی نفع نقصان کے، بچوں اور بڑوں کو بیک وقت ایجوکیٹ کرنے اور معاشرے کا مفید شہری بنانے سے مگن ہے۔
ہماری انتہائی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر قیصر عباس کی دعوت پر سرگودھا یونیورسٹی کے 7 روزہ ’’ریسرچ ارینا‘‘ کے آخری روز کی تقریبات کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ ذریعہ اس کا ڈاکٹر سہیل راجہ بنے۔
ہم نے سوچا کہ ایک دور دراز سی یونیورسٹی ہو گی اور ہمیں نصیحتیں کرنے کا خوب موقع ملے گا لیکن سرگودھا یونیورسٹی کی علمی چکا چوند دیکھ کر ہماری آنکھیں ابھی تک کھلی ہیں۔ وہاں کا تعلیمی ماحول لائبریری، انکیوبیشن سنٹر اور طلباء اساتذہ کا علمی ذوق دیکھ کر ہم حیران ہی رہ گئے لیکن پریشان نہیں بلکہ از حد خوش ہوئے۔ ڈاکٹر قیصر عباس یقیناً ایک انتھک آدمی، زبردست ایڈمنسٹریٹر اور بہترین ماہر تعلیم ہیں۔ وہ ہر وقت یونیورسٹی کو آگے سے آگے بڑھانے کا سوچتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس بہت زبردست منصوبے ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوں اور ان کی یونیورسٹی جو دنیا بھر میں پہلی ہزار یونیورسٹیوں میں شامل ہو چکی ہے پہلے دس نمبر پر آ جائے۔
یہاں میری دونوں جامعات کے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ڈائیلاگ کا سلسلہ بھی شروع کرائیں۔ کتاب میلہ کے ساتھ ساتھ ہر شام اور ریسرچ ارینا کے دوران کتابیں لکھنے والے نئے پرانے حضرات، کتابیں پڑھنے والے سکالرز کے درمیان مکالمہ بھی ہوا کرے جس میں طلبہ بھی حصہ لیں تاکہ ان کے سوالات کا بھی مفصل جواب دیا جا سکے۔ خالی خولی خطاب سے تشنگی باقی رہ جاتی ہے جو ’’مکالمہ‘‘ سے دور کی جا سکتی ہے اور طلبہ کی دلچسپی بھی تقریبات میں بڑھائی جا سکتی ہے۔ یقیناً دونوں اعلیٰ درجہ کے ماہرین تعلیم اس پر پہلے سے ہی غور کر رہے ہوں گے۔
بات علم اور اس کے فروغ کی چلی ہے تو ہائر ایجوکیشن کمشن پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر کا ذکر کئے بغیر ادھوری رہے گی۔ جب سے ڈاکٹر شاہد نے منصب سنھبالا ہے کام کی ایک نہ رکنے والی ہلچل ہے۔ طالبعلموں کی علمی پیاس بجھانے کیلئے مختلف جامعات سے تعاون کرکے نئے نئے کام کئے جا رہے ہیں۔ اساتذہ کی تربیت کے پروگرام بھی بغیر روک ٹوک جاری ہیں۔ روزانہ کوئی ایسی محفل برپا ہو رہی ہے جس کا مقصد اس سوچ بچار کو آگے بڑھانا ہے کہ طالبعلموں، اساتذہ اور جامعات میں آگے بڑھنے کا سامان کیسے پیدا کیا جائے۔
ڈاکٹر شاہد منیر تو ہیں ہی، ان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر قاسم بھی بہت محنت سے معاملات کو لیکر چل رہے ہیں۔
آخر میں پنجاب حکومت سے درخواست ہے کہ وہ لائبریریوں کے حوالے سے بھی اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کیلئے آگے بڑھے، نئی لائبریریاں قائم کرے اور پرانی لائبریریوں کا تحفظ کرے۔
بااثر افراد کی طرف سے لائبریریوں کو تباہ کیا جا رہا ہے انہیں اپنی مسکن گاہ کا حصہ بنا کر گاڑیاں پارک کی جا رہی ہیں اور جولائبربریاں بچ گئی ہیں ان کے اندر کا ماحول قبرستان سے مختلف نہیں۔ ان حالات میں علم دوستی کے دعوے اور تقاضے کیسے پورے کئے جا سکتے ہیں۔ ای لائبریریوں کا قیام بہت اچھی بات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’’کاغذ لائبریری‘‘کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ کتابوں کو لائبریریوں سے نکالا نہ جائے بلکہ بسایا جائے۔
حکومت سے درخواست ہے فوری طور پر ایسی کمیٹی قائم کرے جس میں کتاب دوست افراد شامل ہوں پروفیشنل لوگوں کو لائبریریوں کے تحفظ پر مامور کیا جائے اور انہیں سرخ فیتہ سے نجات دلائی جائے۔
علمی کاوشیں اور لائبریریاں
Mar 14, 2024