جمعرات، 3رمضان المبارک ،  1445ھ،14 مارچ 2024ء

Mar 14, 2024

 تحریک انصاف نے مزاحمت کا فیصلہ کر لیا۔  عید کے بعد تحریک میں تیزی آئے گی۔
ظاہر بات ہے جب علی امین گنڈا پور ، شیر افضل مروت، لطیف کھوسہ، گوہر ایوب ، اسد قیصر جیسے منہ زور رہنما ہر وقت ہر جگہ شعلہ بار نگاہوں کے ساتھ آگ کے تیر برساتے نظر آئیں گے تو چند ایک مفاہمت کے حامی کیا کریں گے۔ معلوم نہیں ان سب کو اڈیالہ جیل میں بند قیدی سے احکامات ملتے ہیں یا یہ سب ازخود اپنے آپ کو تحریک انصاف کے آئندہ کے مضبوط رہنما کے طور پر پیش کرنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ یوں بھی اس وقت الیکشن کے نتائج کے بعد کا ماحول خاصہ گرم ہے۔ الیکشن مہم میں اور پارٹی ٹکٹ کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرنے والے امیدوار اب اتنی آسانی سے اپنی شکست تو قبول کرنے سے رہے۔ اس لیے لگتا یہی ہے کہ عید کے بعد جیسے جیسے موسم گرم ہو گا تحریک انصاف کی احتجاجی مہم کا ٹمپریچر بھی تیزی سے بڑھے گا۔ اب صاحبان اقتدار بھی چونکہ کیل کانٹوں سے لیس ہیں اور پرامید بھی ہیں اس لیے  مقابلے کی فضا نہایت سنگین بنتی نظر آ رہی ہے۔ یوں یہ سیاسی رنگین فضا سنگین بھی بن سکتی ہے۔ ہمارے سکول دور میں کوئٹہ کے دربار ہوٹل والی سڑک پر رنگین ہوٹل اور سنگین ہوٹل آمنے سامنے تھے ان میں ہمہ وقت گانوں کا زبردست مقابلہ چلتا تھا یہ دور گرامو فون کا تھا۔ حتیٰ کے رمضان میں بھی اس دور کے رواج کے مطابق پردہ ڈال کر یہ ہوٹل کھلے ہوتے تھے اور گانے بج رہے ہوتے تھے دھیمے سروں میں۔ اس وقت ایسا ہی ماحول ہماری سیاست میں چل رہا ہے۔ دھاندلی کے نام پر دنگل ہو رہا ہے۔ عوام گرچہ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کے عادی ہیں مگر اب کی بار معاملہ سخت ہے اور جان عزیز۔ وہی 77ء￿  والی حالت سامنے آتی لگ رہی ہے۔ بس کردار بدل گئے۔ اب پی ٹی آئی بمقابلہ پی پی اور نون لیگ ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی تحریک کیلئے پر تول رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت بھی تیار نظر آ رہی ہے۔ یوں میں بھی بدنام تو بھی بدنام اللہ جانے دونوں کا کیا ہو گا انجام والا معاملہ سامنے ہے۔یوں سیاسی نظام ایک بار پھر ڈانواں ڈول لگ رہا ہے۔ 
پاکستان میں 3 کروڑ بھکاری ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف
 جہاں 24 کروڑ گداگر رہتے ہوں خواہ امیر ہیں یا غریب وہاں صرف 3 کروڑ بھکاریوں کی تعداد پر کسی کو حیرت ہے تو کیوں ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا تھا 
’’مانگنے والا گدا ہے بھیک مانگے یا خراج‘‘ 
ہمارا تو پورا ملک اس وقت مانگے تانگے کی امداد پر ہی چلتا ہے۔ عالمی بنک ہو یا یورپی فنڈ۔ امریکی امداد ہو یا آئی ایم ایف یا پھر عرب ممالک اور چین کی طرف سے قرضوں کی فراہمی یا ادائیگیوں میں رعایت۔ ہر پاکستانی لاکھوں روپے کا مقروض ہے مگر حکمرانوں کا پیٹ اور ملکی خزانہ نہیں بھرتا۔ غریب بے چارے مفت میں بدنام ہیں کہ ہر وقت رعایتیں مانگتے ہیں ورنہ حکمرانوں سے لے کر اشرافیہ تک سب دنیا بھر سے خیرات مانگتے رہتے ہیں۔ رہی بات گداگری کی تو یہ ایک بہت بڑی لعنت ہے جو عرصہ دراز سے ہمارے ہاں موجود ہے۔ کیا شہر کیا گائوں کیا گلی یا سڑک جہاں جائیں خاص طور پر تجارتی مراکز میں تو یہ بلائے ناگہانی کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں آرام سے خریداری بھی محال ہو جاتی ہے۔ کیا مساجد کیا ہسپتال ہر جگہ یہ بھکاری فوج کی طرح جمع ہوتے ہیں۔ اب رپورٹ کے مطابق لاہور میں اوسطاً ایک بھکاری 1100 روپے روزانہ کماتا ہے کراچی میں یہ شرح 1900 روپے تک ہے۔ یوں روزانہ یہ 3 کروڑ بھکاری 27 ارب روپے کماتے ہیں جو ڈالروں میں سالانہ 3 ارب 71 کروڑ ڈالر سے زیادہ بنتے ہیں۔ ایک ایسی بھکارن کا بھی پتہ چلا ہے جو اندھی بن کر بھیک مانگتی تھی اور اب اس کا ملائیشیا میں اپنا ہوٹل اور جائیداد ہے جبکہ بیشتر اہم پوائنٹ پر بھیک مانگنے والے پوش ایریاز میں رہتے ہیں اور عالیشان گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ جبھی تو ان میں اور ہماری اشرافیہ میں  کوئی فرق نہیں رہا۔ نہ کاروبار کا نہ  بود و باش کا…
آسکر ایوارڈ کی تقریب میں ہالی وڈ فنکار اسرائیل کیخلاف پھٹ پڑے
فلمی دنیا میں آسکر ایوارڈ سب سے بڑا ایوارڈ تسلیم کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے فنکاروں کو امید رہتی ہے کہ کبھی قسمت نے یاوری کی تو انہیں بھی یہ نصیب ہو سکتا ہے۔ 
ہر سال اس کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس سال لاس اینجلس امریکہ میں منعقدہ یہ تقریب ان حساس دل رکھنے والے بڑے اداکاروں کی وجہ سے غزہ کی حمایت کی تقریب میں بدل گئی۔ اداکاروں نے کھل کر اسرائیل کے مظالم پر آواز بلند کی اور یوں امریکی حکومت کو جو اسرائیل کی پشت پناہی کرنے کے سبب پہلے ہی دنیا بھر سے لعنت ملامت لے رہی ہے اپنے ملک کے حساس طبقے کی طرف سے بھی لعن طعن کا نشانہ بننا پڑا۔ تقریب میں اداکاروں نے فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت میں سینوں پر سرخ بیج لگائے اور اپنے خیالات کے اظہار کے وقت غزہ کے قتل عام پر اسرائیل کو لتاڑا۔ صرف یہی بات نہیں ہوئی، کئی یورپی ممالک نے امریکی دبائو سے نکلتے ہوئے فلسطینیوں کی امداد دوبارہ بحال کر دی ہے اور وہاں امدادی اشیا بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ خود امریکہ کی دوغلی پالیسی بھی دیکھیں۔ ایک طرف غزہ میں جہازوں کے ذریعے امدادی اشیاء اور خوراک کے تھیلے گرا رہا ہے دوسری طرف اسرائیل کو غزہ پر برسانے کے لیے مہلک بم بھی بے حساب و کتاب دے رہا ہے۔ یوں شکار اور شکاری دونوں کو خوش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یاد رہے کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے سرخ بیج لگا کر فنکاروں نے اس سے قبل گریمی اور اسکرین گلڈ ایوارڈز میں بھی شرکت کی تھی۔ گزشتہ روز لاس اینجلس میں تقریب کے مقام کے باہر سینکڑوں امریکی اسرائیل کے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہیں۔ کئی بار پولیس اور ان کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ سوائے امریکی حکومت اور اس کے چند حامی ممالک کے، دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے۔ خدا کرے یہ رنگ لائے اور فلسطینیوں پر غزہ میں جاری مظالم بند ہوں جس میں 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ 
ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ کی ایم بی اے کی ڈگری بوگس نکلی
سچ کہیں تو حقیقت میں ہم جیسے حساس دل والوں کو
 پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی 
اب کسی بات پر نہیں آتی۔
اب گھروں سے کروڑوں ڈالر ملیں یا 8 دس قیمتی نان کسٹم پیڈ لگڑری گاڑیاں۔ کروڑوں کی جائیداد ثابت ہو جائے یا کچھ اور کوئی بات۔ عجیب نہیں لگتی۔ سب کچھ یوں لگتا ہے کہ روٹین کے مطابق ہو رہا ہے۔ اس لیے ان جعلی بوگس ڈگریوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر ایمانداری سے بڑے یا چھوٹے عہدوں پر تعینات افسروں یا ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ڈگریاں چیک کرائی جائیں اور وہ بھی کسی غیر ملکی ادارے سے تو نجانے کیسی کیسی کہانیاں جنم لیں گی۔ کتنے لوگ بے نقاب ہو جائیں گے۔ ہمارے ہاں بے ایمانی سے بوگس تعلیمی اسناد بنا کر نوکریاں حاصل کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جبھی تو اسلم رئیسانی کے فرمودات کی روشنی میں ڈگری ڈگری ہوتی ہے چایے اصل ہو یا نقلی والا فلسفہ عام ہے۔ اب ڈی جی سپورٹس کی ایم بی اے کی اعلیٰ ڈگری بھی بوگس نکلی۔ یہ جامشورہ یونیورسٹی سندھ سے کسی شریمتی گیتاشنکر کے نام سے ملی ہے۔ اب ان کو تو پتہ ہی نہیں ہو گا کہ ان کی ڈگری پر شعیب کھوسہ نامی شریمان ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ تعینات ہو کر نجانے کب سے مزے اڑا رہے ہیں۔ تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ اب کھوسہ جی کا اصرار ہے کہ میری ڈگری درست ہے۔ اگر یہ درست نہ ہوئی تو کیا کھوسہ جی تمام مراعات اور تنخواہیں واپس کر دیں گے۔ قانون کے مطابق جو سزا ملے گی وہ قبول کر لیں گے یا اپنی غلطی پر ہی اصرار کریں گے اور خود کو گنگا نہائے ثابت کرنے کے لیے عدالتوں کا وقت ضائع کریں گے۔ ایسے عناصر ویسے تو کسی رعایت کے مستحق نہیں مگر اب اس چھلنی سے سب مشتبہ افرادکو گزارنا ہو گا تاکہ ان کا کچا چٹھہ سامنے آئے…

مزیدخبریں