رمضان المبارک،مہنگائی ، پوسٹ ڈیٹ چیکس

 امیر محمد خان  
مارچ ہماری تاریخ کا وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان کے قیام کی قرارداد پیش کی گئی، اسی ماہ رمضان المبارک کا بھی آغاز ہورہا ہے جس میں پاکستان کا قیام عمل میں آیاتھااور اسی ماہ فروری 8 کے انتخابات کے نتیجے میں حکومت کا قیام عمل میں آیاگو کہ یہ کسی بھی جماعت کی یک جماعتی حکومت یا اکثریتی جماعت کی حکومت کہلا سکے ، ملک میں موجود حاضر اسٹاک کی جماعتوںنے حسب معمول کندھے سے کندھا ملانے کی کوشش کی مگر ہر جماعت اپنا حق سمجھتی ہے کہ اسے ہی اس ملک میں راج کرنے کا حق ہے چاہے عوامی حمائت حاصل ہو یا نہ ہو خاص طور جب ملکر حکومت بنانے کی صورتحال ہو تو اپنی نشستوںکو دیگر جماعتوںجس کی بھی حکومت بننے جارہی ہو اور دوسری جماعت کی نششتوں کی ضرورت ہو قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کو تو کم نشستوں والی جماعت اپنی جیتی ہوئی نشستوں کو حکومت سازی کیلئے ”بلیک میلینگ“ کیلئے استعمال کرتی ہیں اور من پسند و منافع بخش وزارتوں اور عہدوں کا مطالبہ کرتے ہیں پاکستان کے عوام یہ تماشہ ایک طویل عرصے سے دیکھ رہے ہیں یہ سلسلہ آج بھی اپنے بھر پور انداز میں موجود ہے ا پنی کامیاب نشستوں کے ذریعے بلیک میلنگ کرنے والی جماعتیں اپنے اس اقدام کو حکومت میںشامل ہونے یا حمائت کرنے کو ”’ملک کی خاطر “ کا نام لیتے ہیںچلیں اب اللہ کا شکر ہے کہ حکومت بن گئی میں اس حکومت کو پاکستان تاریخ میں میاں نواز شریف کی گزشتہ حکومت کی۰ برطرفی کے بعد جو عدالتوں اور سازشوں کے ذریعے گھر بھجی گئی تھی پہلی حکومت کہونگا ، میں یوں کہونگا کہ کہ 2018ء میں قائم ہونے والی حکومت جو سازشوں مین بنی وہ تو تھی ہی نہیںچونکہ اس ساڑھے تین سال کے سیاہ دور میں پاکستان کیلئے کچھ نہ ہوسکا آج 9مئی کے شہکار لوگ جب عدالتوں، سڑکوں ، پریس کانفرنسوں میں روتے ہیں تو عوام ہنستی ہے نہ حکومت مین رہ کر کچھ کیا جب ہٹے حکومت سے تو سانحہ 9 مئی کیا واہ واہ ۔۔۔ 76سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہم مشکلات سے دوچار ہیں، 241 ملین آبادی پرمشتمل جوہری قوت سے لیس جنوبی ایشیا کے اس ملک کو متعدد بحران اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کو کچھ چیلنجوں کا سامناہے۔ جوریکارڈ سطح کی مہنگائی اور سست شرح افزائش سے متاثرہ معیشت کو سنبھالے گی،پاکستان میں عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے لیے سیاسی رابطوں کے بعد سامنے آنے والی مخلوط حکومت کو معیشت، سیکورٹی اور سیاسی معاملات کے علاوہ کئی اداروں کی نجکاری اور ایف بی آر اصلاحات سمیت کئی کڑے امتحانوں کا سامناہے۔
حالیہ انتخابات کے بعد اگرچہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ اکیلے حکومت بنا سکے،پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے آٹھ فروری کےانتخابات کے بعد کہا کہ ہمارا فرض ہے کہ اس ملک کو بھنور سے نکالنے کی تدبیر کریں۔سب کو دعوت دیتے ہیں کہ اس زخمی پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہمارے ساتھ بیٹھیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک کو بھنور سے نکالنے کے لئے کسی ایک جماعت کا کاندھا اس قابل نہیں کہ وہ پاکستان کو جلد مشکلات سے باہر لاسکے، اس کے لئے تمام جماعتوں کواگر وہ واقعی ہی مخلص ہیںتو اپنے کاندھوں پر بوجھ برداشت کرنا ہوگا،کابینہ کا حصہ بننا ہوگا، صرف آئینی عہدے لے کر مزے لینے کا وقت گزر چکا
 ہے، پی ٹی آئی حکومت نے ملک کی معیشت کا جس طرح بیڑا غرق کیا،نو مئی کے واقعے نے عالمی سر مایہ کاروں کے اعتماد کو جو ٹھیس پہنچائی وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔۔ معاشی معاملات کی درستگی میں ابھی وقت لگے گا ، مگر حکومت کیلئے اسوقت نہائت ضروری تھا اور ہے
 کہ فوری طور پر اس ماہ مقدس رمضان کریم جبکہ دنیا بھر میں مسلمان ممالک ماسوائے پاکستان کے اشیاءخودونوش کو قیمتوں کے ہر شخص کیلئے آسان کردیتی ہیں یہ مانا کہ مہنگائی کاجن اسوقت تمام دنیا میں راج کررہا ہے ، سعودی عرب میں بھی جہاں بے شمار کھانے پینے کی اشیاءدرآمد ہوتی ہیں مہنگائی ہے مگر رمضان کی آمد کے ساتھ سعودی حکومت کی سخت کاروائیوں کی بناپر چاہے سڑک پر خونچہ فروش ہو یا بڑی بڑی سپر مارکیٹس کھانے پینے کی اشیاہوشرباحد تک سستی ہیں جس سے عوام اپنی حکومت کو اس ماہ رمضان میں دعائیں دیتے ہیں مگر اسکے مقابلے پاکستان میں ماہ رمضان میں اشیاءخوردونوش پر نظر ڈالیںتو یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمارے کاروباری افراد جی بھر کے منافع کیلئے قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں پہلے ہی بے روزگاری ، مہنگائی سے عوام تنگ ہیں اور رمضان میں چیزوں کی قیمتیں کئی گناہ بڑھ جاتی ہیں کیا پھل کیا مرغی کیا گوشت کیادالیں ںسب کا برا حال ہے ، ہماری حکومت نے حل نکالنے کی کوشش کی ہے کہ فئیر پرائش شاپ پر سستی اشیاہوں ، پنجاب میں مریم نواز پندرہ کروڑ آبادی والے اس ملک میں کچھ کو رمضان بیگ پہنچارہی ہیں مگر یہ طریقہ ہر گز بھی قابل عمل یا قابل ستائش نہیں اسے کچھ تو ہے تو کہا جاسکتا ہے مگرکیوں ہماری مرکزی ، صوبائی حکومتوں کی ہاتھ اور دماغ اسطرف کام نہیں کرتے کہ چیزوں کی قیمتوں طاقت کے ذریعے کم کرائی جائیں ، اسکی وجہ لگتا ہے صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ اشرافیہ جو اسمبلیوں میں بیٹھی ہے انہی کے کاروبار ہیں جو مارکیٹ میںمہنگی سپلائی دیکر منافع میں اضافہ کرتے ہیں انہیں لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے حوالے سے صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے عدالتیں جانیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے جانیں عدالتوں کو یہ بات نام نہاد آذادی اظہار کے سامنے سمجھ نہیں آتی ، کوئی نام نہاد آزادی اظہار ملکی سا لمیت پر مقدم نہیں یہ لوگ نہ صرف ملک میں افراتفری پھیلا نے میں مصروف ہیں بلکی بیرونی دنیا میں پاکستان کا نام بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ایک خوش آئیند بات لگتی ہے کہ وزارت اطلاعات میں ایک خاندانی فرد عطاتارڑ کو وزیر بنایا گیا ہے ۔ وہ حقیقی معنوں میں بیرون دنیا  میں پاکستان کے خلاف پھیلائے جانے منفی پروپگنڈہ کو وزارت اطلاعات کے بیرون ملک قونصلرز ، ایکسٹرنل پیبلسٹی کو سرگرم کرینگے ، وزارت اطلاعات نے گزشتہ سالوں خاص طور پر نگرانوں کے دور میں بہت گند مچائی ہے ، پی ٹی وی میں سابقہ نگران وزیر اطلاعات نے جو لوٹ مچائی اور اور کروڑوں کے پوسٹ ڈیٹیٹ چیکس کا معاملہ اہم ہے اس سے اہم اس وزارت نے پاکستان اور دوست ممالک کے درمیان ناچاقی پیدا کی اور نگران وزیراطلاعات نے ایسے لوگو ں کی سرپرستی کی ایسے بہت سے معاملات ہیں جس پر وزیر عطا تارڑ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے پی ٹی وی کے خزانے میں 9 ارب روپیہ عوام کے ٹیکس جاتے ہیں وہ اس وزارت کو بہتر انداز میں چلائیں گے چونکہ انکا کوئی بیرون ملک ایجنڈہ نہیں نہ ہی کسی خاص مسلک کیلئے کام کرتے ہیں انکے دادا مخلص پاکستانی تھے اللہ جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے ،وطن سے مخلصی انکے خون میں شامل ہے ۔یہ وہ وزارت ہے کہ اگراس میں قلم فروش، بیان فروش، درپردہ ملک دشمن بیٹھ گئے تو میڈیا جو اسوقت دنیا میں وہ شعبہ ہے جو کسی ملک کی تباہی کا سبب بنتا ہے اور ہمارے ہاں تو ماشااللہ پرویز مشرف کی مہربانی سے سیکڑوں کی تعداد میں الیکٹرانکس چینلز بنادئے گئے ہین جن میں اکثریت کے سامنے ملک کی سالمیت ، ملک میں استحکام نہیں بلکہ منفی سیاسی سوچ ، منافع خوری وردیگرمالی فوائد ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...