مجھے آزمانے والے! مجھے آزما کے روئے!

شاعروں کے شاعر جناب سیف الدین سیفؒ نے یہ شعر کہا تھا:
مرے پاس سے وہ گزرے، مرا حال تک نہ پوچھا
مےں یہ کیسے مان جاﺅں کہ وہ دور جا کے روئے
تو ان کے ذہن کے کسی دور دراز گوشے مےں بھی یہ خدشہ نہ ہوگا کہ ایک دن یہ شعر پاکستان کے وزیراعظم کے لب پر آنے اور بے وزن ہو جانے کی ’سعادت‘ ایک ساتھ حاصل کر لے گا!
جناب یوسف رضا گیلانی نے ہفت روزہ ٹائم کے نمائندے سے کیا کہا؟ اور اس نے کیا سنا؟ اور دنیا کیا سمجھی؟ یہ بھید تو ’ٹائم‘ کی آئندہ اشاعت دیکھنے پر ہی کھلے گا! ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ جناب نواز شریف ’ٹائم‘ کے سر ورق پر ’CATALYST‘ کے عنوان سے جلوہ گر ہوئے تھے اور ابھی تک انہیں کسی بھی ’عمل‘ مےں شریک کیے بغیر ان سے محض ’عمل انگیزی‘ کا کام لیا جا رہا ہے! ’ٹائم کا کور‘ جناب سید یوسف رضا گیلانی کے لئے کیا لا رہا ہے؟ یہ تو ٹائم دیکھنے پر ہی پتہ چلے گا مگر ابھی چند ہفتے پہلے ’جان ملر‘ ’ٹائم کے کور‘ پر جلوہ گر ہوئے اور کل ایف بی آئی کے سربراہ کے طور پر ’دوسالہ توسیع‘ کی ’تجویز‘ کا محور بن گئے! اس توسیع کی توثیق کی خبر آئے تو پتہ چلے کہ معاملات کا رُخ بدستور رہے گا، یا، امریکہ کے اندرونی معاملات کسی اور رُخ پر لے جانا طے پا گیا ہے!
جناب یوسف رضا گیلانی نے ’ٹائم‘ کو بتایا کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے درمیان ’تعاون‘ ختم کیا جا چکا ہے! پاکستان مےں امریکی پالیسیوں کے خلاف آوازیں بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہےں اور اگر امریکہ نے فوری طور پر اپنا اعتماد بحال نہ کیا تو ’امریکہ کی حمایت‘ اور بھی مشکل ہو جائے گی! انہوں نے بتایا کہ ایبٹ آباد مےں اسامہ کی رہائش کا عرصہ ’6سال‘ پر پھیلا دیا گیا ہے، حالانکہ یہ محض مبالغہ آرائی ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں! اگر امریکہ اپنے فیصلوں مےں پاکستان کو شریک رکھے تو پاکستان امریکی ڈرون حملے جاری رکھنے کی اجازت رحمت فرما سکتا ہے! جناب سید یوسف رضا گیلانی نے بات آگے بڑھاتے ہوئے بتلایا کہ وہ ’سی آئی اے پروگرام‘ پر شرائط دوبارہ طے کرنے کے لئے تیار ہےں، لیکن امریکہ نے امداد ختم کی تو وہ بھی کوئی ’فیصلہ‘ کرنے پر ’مجبور‘ ہوں گے! انہوں نے بات زیادہ وضاحت کے ساتھ کرتے ہوئے کہا کہ حالات کے موجودہ رُخ پر امریکہ کی مزید حمایت سے ان کی حکومت خطرے مےں پڑ سکتی ہے کیونکہ انہیں ایک ’ایسی‘ پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے، جہاں ’عمل انگیز‘ بیٹھے ہےں اور وہاں امریکہ کی مخالفت بڑھتی چلی جا رہی ہے! جناب سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے ’جہاں تک ایبٹ آباد آپریشن کا تعلق ہے، ہم ابھی تک حیران ہےں کہ امریکہ نے یہ ’آپریشن‘ اکیلے کیسے کر لیا؟ ’مشترکہ آپریشن‘ بہتر ’آپشن‘ ثابت ہو سکتا تھا!‘
’ایبٹ آباد آپریشن‘ پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کر کے انہیں پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا جبکہ امریکی سفارت خانے کے مطابق امریکی سفیر سینیٹر جان کیری کے دورہ پاکستان پر تبادلہ¿ خیال کے لئے جناب سلمان بشیر سے ملنے دفتر خارجہ گئے! جناب کیمرون منٹر کو دفترِ خارجہ طلب نہیں کیا گیا!
اخباری اطلاعات کے مطابق ’وزیر خارجہ‘ کی عدم موجودگی امریکی سفارت کاروں کی بہتر کارکردگی مےں ’حائل‘ ہو رہی ہے! جناب شاہ محمود قریشی ہوتے تو معاملات زیادہ آسانی سے حل کر لیے جاتے! ’سیاست کار‘ اور ’بیورو کریٹ‘ کے رویے کا فرق یہیں ظاہر ہو جاتا ہے، جناب سلمان بشیر سرکاری ملازم ہونے کے سبب ہر قدم انتہائی احتیاط سے اٹھا رہے ہےں! کوئی ’سیاست کار‘ ہوتا تو پاکستانی سفارت کار منہ دیکھتے رہ جاتے اور معاملات طے پا جاتے! انسان بوجھ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور پھر کسی نہ کسی طرح یہ بوجھ اٹھا ہی لیتا ہے جبکہ لادد جانور صرف کھڑا رہتا ہے اور بوجھ لادا جاتا رہتا ہے حتیٰ کہ ’اونٹ پر آخری تنکا‘ بھی رکھ دیا جاتا ہے اور سب کچھ نیچے آ رہتا ہے! کبھی ’دو عہدے‘ ضرورت سے زیادہ بوجھ قرار پا جاتے ہےں، کبھی ابوان صدر ’سیاسی جلسہ گاہ‘ کے طور پر ’ناقابل استعمال‘ قرار دے دیا جاتا ہے، کبھی ’سیاسی جماعتی اجلاس‘ ناقابل انعقاد قرار پا جاتے ہےں! مگر بوجھ اٹھانے والا بوجھ دیکھ کر چلاتا ہے، ’یہ ناانصافی ہے! کھلی ناانصافی! مےں اس سے کئی گنا زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہوں! مےں ویٹ لفٹر رہا ہوں!
’وزن برداری‘ ایک مشغلہ ہے مگر ’بار برداری‘ ایک پیشہ ہے! ’وزن بردار‘ آدھا وزن اٹھا کر بھی چار قدم نہیں چل سکتا! مگر ’باربردار‘ وزن اٹھاتا ہی اتنا ہے، جتنا وہ منزل تک پہنچا سکتا ہو! تو معلوم ہوا کہ ہمارے ’وزن بردار راہ نما‘ جانتے ہی نہیں کہ ’منزل‘ کہاں ہے؟ وہ صرف سٹیج پر وزن اٹھا کر تالیاں سننے کے عادی ہےں! ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ ابھی تک ’سٹیج‘ سے نیچے نہیں اتر پائے! یہ عوام کے دروازے تک کب پہنچ پائیں گے؟ یہ بتلانے کے لئے لازم ہے کہ ’پارٹی کی قیادت‘ کوئی ایسا ’فرد‘ کر رہا ہو، جسے علم ہی نہ ہو کہ ’حکومت کے وسائل‘ کیا ہےں؟ اور ’حکومت کے مسائل‘ کیا ہےں؟ ہمیں ’کیری لوگر امداد، چاہئے ہے؟ یا، نہیں؟ ہمیں آئی ایم ایف کی خدمات درکار ہےں؟ یا، نہیں؟ ہمیں کرائے کے ’معیشت دان‘ سر پر بٹھائے رکھنا ہےں؟ یا، نہیں؟ یہ تمام باتیں ’فیصلہ‘ چاہتی ہےں اور ہم ’ٹالو‘ کیا جانیں؟ کہ وقت ٹلتا نہیں، ٹالا جاتا ہے! اور وقت ٹالنے کے لئے بھی ذہن کے ساتھ ساتھ ہاتھ پاﺅں بھی چلانے پڑتے ہےں، حیلہ ہو تو وسیلہ ہاتھ آ ہی جاتا ہے! آج دہشت گردی کے خلاف واشنگٹن، ماسکو، پی اِنگ، لندن، پیرس اور برلن ایک طرح سوچ رہے ہےں اور شری من موہن سنگھ کابل مےں کھڑے کہہ رہے ہےں، ’بھارت پاکستان مےں ایبٹ آباد جیسا آپریشن نہیں کرے گا!‘
جناب پرویز مشرف نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام مےں ’دور ورشن مہمان‘ کے طور پر شرکت کے دوران امریکہ، پاکستان تفہیم کے خدوخال بیان کئے اور یہ تفہیم، ’ریاستوں کے درمیان تفہیم‘ قرار دی! اب کوئی کہے تو کیا؟ کوئی سنے تو کیا؟ بات تو بہت پہلے سے بنی پڑی ہے!
مجھے آزمانے والے، مجھے آزما کے روئے
کوئی روئے تو پتہ چلے کہ ہم اٹھارہ کروڑ لوگ کس کی آزمائش پر پورا اترتے مےں لگے ہےں! اپنوں کی؟ یا، غیروں کی؟

ای پیپر دی نیشن