صوبہ سرحد میں عمران خان کا سونامی کئی دہائیوں پر مشتمل منفی قوم پرستی کی بنیادوں کو بہا کر لے گیا اور یہ معجزہ نوجوانوں کے ہاتھوں سرانجام پایا۔ قیام پاکستان سے قبل سرخ پوش تحریک کی قیادت خان عبدالغفار خان کر رہے تھے۔ بدقسمتی سے یہ جماعت بھی جمعیت علمائے ہند کی طرح ہندوستان کی آزادی اور غیروں کی غلامی سے نجات کے نام پر آل انڈیا کانگریس کے دام سحر میں گرفتار ہو گئی اور ”مہاتما گاندھی“ کی سیاسی پیروی کرنے لگے۔ اسی ”کامل تابعداری“ کی بدولت خان عبدالغفار خان جو حریت اور آزادی کے نقیب تھے ”سرحدی گاندھی“ بن کر ”اہنسا“ کے پجاری بن گئے اور قیام پاکستان کی تحریک میں بھرپور کوشش کے باوجود یہ دونوں جماعتیں سرحدی مسلمان پٹھانوں کو پاکستان اور قائداعظمؒ کی حمایت سے باز نہ رکھ سکیں اور ریفرنڈم صوبہ سرحد کے غیور مسلمانوں نے پاکستان اور قائداعظم کی حمایت میں ووٹ ڈال کر اپنی دینی حمیت کا ثبوت دیا اور صوبہ سرحد پاکستان کا بازوئے شمشیر بن گیا۔
پاکستان بننے کے بعد سرخپوش تحریک نے پینترا بدلا اور صوبہ سرحد میں ”پشتونستان“ کے نام سے علیحدگی پسند تحریک کی راہ ہموار کی جانے لگی جسے درپردہ کانگریس نواز مولویوں اور افغانستان کی حمایت بھی حاصل تھی۔ مگر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی اور صوبہ سرحد کے عوام کی اکثریت نے کبھی بھی پاکستان سے علیحدہ ہو کر ”پختونستان“ بنانے کی حمایت نہیں کی۔ جس کے بعد سرحدی گاندھی کے فرزند خان عبدالولی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کے نام پر ملکی سیاست میں نوجوانوں کو سرحدی گاندھی کے فلسفے پر چلانے کا کام سنبھال لیا۔
خان عبدالولی خان کی جمہوری حکومتوں کے قیام اور آمریت کے خلاف دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ جدوجہد بھی کرتے رہے۔ وہ بارہا قومی اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب ہو کر ممبر قومی اسمبلی بنے۔ ان کے کئی ساتھی بھی ممبر قومی و صوبائی اسمبلی بنے۔ انہوں نے آئین پاکستان کے تحت حلف بھی اٹھایا مگر ”پشتونستان“ کا خواب انکے ذہنوں سے محو نہ ہو سکا۔ بعدازاں افغانستان میں روسی قبضہ اور اس کے بعد کی صورتحال اور افغان مجاہدین کی جنگ نے اس خواب کو مزید منتشر کر دیا مگر عوامی سیاست میں عوامی نیشنل پارٹی ایک مضبوط جماعت کے طور پر صوبہ سرحد میں کام کرتی رہی اور کامیاب ہو کر حکومتوں کا حصہ بھی بنتی رہی اور مرکز میں بھی وزارتوں کے مزے لوٹتی رہی۔
موجودہ 2013ءکے الیکشن مہم میں اس جماعت کو اگرچہ طالبان کی طرف سے دہشت گردی کا شکار بھی ہونا پڑا تو اس کی وجہ طالبان کی مخالفت ہے۔ کئی رہنماﺅں کی ہلاکتوں کے بعد امید تھی کہ عوام کی ہمدردی کی لہر اسے 2013ءالیکشن میں مزید کامیابیاں دے گی مگر اچانک حیران کن طور پر صوبہ سرحد میں عمران خان کے سونامی نے نوجوانوں کو مسخر کر لیا جو دہشت گردی اور کرپشن سے تنگ آ چکے تھے۔ یہ وہ تیسری نسل ہے جو قیام پاکستان کے بعد سامنے آئی ہے اور یہ مکمل طور پر پرو پاکستانی ہیں۔ ان کا خمیر اور ضمیر یہاں کی مٹی سے اٹھا ہے اور وہ علیحدگی پسند رجحانات اور قوم پرستی کے منفی پروپیگنڈے سے زیادہ متاثر نہیں ہو سکے۔
یہ نوجوان مذہبی انتہا پرستی اور فرقہ پرستی سے بھی آزاد ہیں۔ عمران کی شکل میں ان نوجوانوں کو ایک ایسا رہنما نظر آیا ہے جو کرپشن، قوم پرستی، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے خلاف صوبہ خیبر پی کے میں امن اور انقلاب کا داعی ہے جو نیازی پٹھان ہونے کے باوجود آزاد خیال اور لبرل معاشرے کی نوید سناتا ہے اور کھیل کے میدان کا فاتح یہ عمران لاکھوں نوجوانوں کا آئیڈیل بھی ہے۔
بالآخر جب عمران خان نے صوبہ سرحد میں 16 سال کی محنت شاقہ کے بعد ان نوجوانوں کا اعتماد جیت لیا جو ٹی وی سکرین پر اسے کھیل کے میدان میں فاتح دیکھ کر ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگاتے تھے تو انہی جوانوں نے الیکشن میں عمران خان کو بھرپور محبت اور ووٹ دئیے۔ یہ وہ نسل نو ہے جن کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ قومی پرستی کے اندھے سیلاب میں بہہ جانا کوئی عقل مندی نہیں اور اس طرح وہ کبھی خوشحالی اور کامیابی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکیں گے۔ ان کا سنہری مستقبل مضبوط ایٹمی پاکستان کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے۔
خود عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں کو بھی اپنی پالیسیوں پر سوچنا ہو گا کہ اگر انہوں نے منفی تعصب پر مبنی قوم پرستی، کرپشن اور جرائم پر قابو پایا ہوتا اور نوجوانوں کو تعلیم، امن اور روزگار دیا ہوتا تو وہ اتنی آسانی سے عمران خان کے سونامی کا شکار نہ ہوتے اور تھوڑا بہت تو جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کو بھی سوچنا ہو گا کہ ضیاءدور سے لے کر آج تک حکومتوں میں رہنے کے باوجود وہ کیوں مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکے۔
مذہبی رجحانات کے باوجود مذہبی طور پر متحرک معاشرے نے ان کو بھی دورخی پالیسیاں رکھنے کی وجہ سے ان پر بھی اعتماد کا بھرپور اظہار نہیں کیا۔ لگتا ہے کہ دہشت گردی، بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کو تبدیلی کی طرف متوجہ کر دیا ہے آئندہ بھی جو جماعت ان مسائل پر قابو پائے گی وہ ہی کامیاب ٹھہرے گی۔