انتخابات اور تحریک انصاف کی ”نئی کاٹ“ کی ناکامی

May 14, 2013

ڈاکٹر اختر شمار

حد شکر کہ انتخابات کسی حد تک پایہ تکمیل کو پہنچے کہ طالبان کی طرف سے پولنگ کے روز دھماکوں کی دھمکیاں بھی مل چکی تھیں۔ مبارک باد کے مستحق ہیں پاکستانی کہ بے خوف و خطر پولنگ سٹیشنوں کی طرف رواں دواں رہے اور الیکشن کے روز ”عید“ کی سی گہما گہمی دیکھنے کو ملی۔ ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا نے قوم کو سیاسی شعور بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سو لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے بہت پرجوش دکھائی دیئے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس بار الیکشن کی کارکردگی کوئی زیادہ بہتر دکھائی نہیں دی۔ پولنگ ایجنٹوں سے لے کر پولنگ عملے کے اراکین بھی غیر تربیت یافتہ محسوس ہوئے۔ نظم وضبط میں بھی بہت کمی دکھائی دی اور بعض علاقوں میں دھاندلی کے واقعات بھی پیش آئے۔ ٹیلی ویژن کی سکر ین پر ”ٹھپا مافیا“ کی فلمیں بھی چلتی رہیں۔بعض جگہوں پر بروقت ووٹنگ شروع نہ کی جا سکی لوگوں کو اپنے ووٹوں کے لئے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر دھکے بھی کھانے پڑے ۔ اس بار ٹرانسپورٹ اور طعام کے پرانے انتظامات بھی نظر نہیں آئے۔ سو اس مرتبہ لوگ خود کوشش کر کے اپنی ٹرانسپورٹ پر ووٹ ڈالنے گئے اس تاریخی ٹرن آﺅٹ کے پیچھے الیکٹرونک میڈیا اور الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ عمران خان کی تحریک انصاف کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ تحریک انصاف نے نوجوانوں کو ”تبدیلی“ کے نعرے کے ساتھ متوجہ کرتے ہوئے بڑے بڑے جلسوں کے ذریعے لوگوں میں شعور اجاگر کیا۔ لوگ سابقہ حکومت سے بہت نالاں تھے۔ بجلی گیس جیسی بنیادی ضروریات کی محرومی نے لوگوں کو ووٹ کی پرچی سے تبدیلی لانے کی طرف مائل کیا۔ تحریک انصاف نے ان انتخابات کو جنون اور پیسے کی جنگ بھی قرار دیئے رکھا تھا۔ تحریک انصاف کے نوجوان بہت سی توقعات بھی رکھتے تھے مگر تجربہ ان کے ساتھ ہاتھ کر گیا۔ الیکشن لڑنا اب ایک آرٹ بلکہ سائنس بن چکا ہے۔بعض تو کہتے ہیں کہ الیکشن لڑنا ”شریفوں“ کا کام نہیں عمران خان بھی سادے اور شریف آدمی ہیں۔ وہ کھری بات کرتے ہیں انہوں نے ہر جگہ یہی کہا کہ وہ ڈرون مار گرائیں گے۔ امریکہ کی غلامی سے نجات دلائیں گے۔ پروٹوکول اور اراکین اسمبلی کے فنڈز ختم کر دیں گے۔ بھلا اقتدار میںآنے سے قبل ایسی باتیں کوئی کرتا ہے؟ الیکشن مہم سے قبل ہی انہیں سٹیج سے گرا دیا گیا اور وہ زخمی ہو کر ہسپتال میں جا پڑے۔ سیکورٹی کے بہانے انہیں ان کی پارٹی سے دور کر دیا گیا، تو خود عمران اس حادثے کو اتفاقی قرار دیتے ہیں مگر ان کے بعض قریبی حلقے اسے بھی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے اگر عمران زخمی نہ ہوتے اور لاہور کے جلسے منعقد کر لیتے اور مہم کا اختتام اسلام آباد ڈی چوک میں کرتے تو رزلٹ مختلف ہوتا۔ مگر جو ہونا تھا ہو چکا۔ اصل بات جو سامنے کی ہے کہ تحریک انصاف نے نئے اداکاروں سے فلم بنوائی نئی کاسٹ سے عموماً فلمیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ عمران خان کے وہی امیدوار کامیاب ہوئے جو منجھے ہوئے تجربہ کار لوگ تھے۔ نوآموز امیدواروں میں سے کوئی کامیاب نہ ہوا۔ پھر الیکشن کمیشن کی عمومی کارکردگی اور نظم و ضبط بھی مثالی نہیں تھا۔ الیکشن کے بعض نتائج رات اڑھائی بجے تک نہ آسکے اور پھر ایک چینل نے تو حتمی گنتی سے قبل ہی محض ووٹوں کی لیڈ سے مسلم لیگ کی نشستوں کو بڑھا کر پیش کیا جس کا نفسیاتی اثر بھی ہوا۔ کئی حلقوں کے نتائج (بقول شفقت محمود) روکے گئے اور تاخیر سے جاری کئے گئے۔ اب خاص طور پر حلقہ NA122 پر عمران خان کی شکست کو انکے ووٹرز تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ حنیف عباسی جیسے امیدوار سے بھی اگلے روز بعد دوپہر عمران خان کی جیت کا اعلان کیا گیا بہرحال عمران خان نے جتنی سیٹیں حاصل کیں۔ اسے یہی نشستیں ملنا تھیںکہ ٹکٹ دیتے وقت بقول عمران ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ خیر غلطی سے انسان سیکھتا ہے۔ اب وہ اپوزیشن میں رہ کر اپنی پارٹی کی مزید تربیت کر سکتے ہیں اور اگر کچھ کرنا بھی ہے تو ایک صوبے کو آئیدیل گورننس کے ذریعے ”نمونہ“ بنا کر دکھا بھی سکتے ہیں۔ نیا پاکستان نہ سہی نیا ”صوبہ“ ہی سہی....
میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں مخالفین کو معاف کرنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ دیا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ اس بار مسلم لیگ پہلے سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھائے گی۔ انہیں مینڈیٹ بھی مل چکا ہے وہ کھل کر خدمت وطن کر سکتے ہیں بس انہیں مولوی فضل الرحمٰن جیسے ہر حکومت میں شامل لیڈروں سے بچنا چاہئے جو دو چار نشستوں سے پانچ برس حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کر کے پاکستان کو مضبوط اور خوشحال بنانا ہے۔ اور اس شعر کو یاد رکھنا چاہئے ....
میں اس سے ہار گیا تھا مگر بہت خوش تھا
وہ اس لئے کہ مجھے کامران ہونا تھا

مزیدخبریں