کراچی‘ کوئٹہ کے حالات سب کے سامنے ہیں‘ اللہ کا شکر ہے انتخابات ہو گئے: چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں آئی بی خفیہ فنڈز کے غلط استعمال کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے رپورٹ جمع کرا دی۔ جس کے مطابق آئی بی سے متعلق آڈٹ کے کچھ قوانین ایسے ہیں جو آئین سے متصادم ہیں عدالت پہلے انہیں ختم کرے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا آئین میں تصادم کا نقطہ اب تک عدالت کی نظر سے نہیں گزرا آئین کے سب آرٹیکل 2 کے تحت آڈیٹر جنرل کو یہ اختیار حاصل ہے وہ ہر محکمہ کا آڈٹ کرے عدالت نے ڈی جی آئی بی سے وضاحت طلب کی ہے کہ وہ بتائیں ان کا آڈٹ قانون کے مطابق کیا گیا یا نہیں مقدمہ کی سماعت 15 مئی تک ملتوی کر دی گئی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ کسی کے الزامات پر سارے نظام کو سبوتاژ نہیں کیا جا سکتا خدا کا شکر ہے ملک میں کامیابی سے الیکشن کا عمل مکمل ہوا صحافی اسد کھر نے کہا معاملے کو ایف آئی اے یا نیب کے حوالے کر دیا جائے وہ گواہ بننے کیلئے تیار ہیں۔ ان کے الزامات پر اٹارنی جنرل نے احتجاج کیا کہ وہ غیر متعلقہ باتیں نہ کریں اسد محمود نے کہا خفیہ فنڈ کا پیسہ سوات اور بلوچستان آپریشن میں بھی استعمال ہوا اس پر چیف جسٹس نے کہا ایسے آپریشن تو انڈر کور ہوتے آپ کو اپنی باتوں کے ثبوت پیش کرنا ہوں گے محض الزام تراشی نہ کریں عدالت نے مذکورہ حکم دیتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 15 مئی تک ملتوی کر دی۔ ثناءنیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کراچی اور کوئٹہ کے حالات سب کے سامنے ہیں پھر بھی اللہ کا شکر ہے انتخابات ہو گئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ پوری دنیا میں خفیہ آپریشن ہوتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا سب کچھ سبوتاژ کرکے بیٹھ جائیں ۔ قومی مفاد پرکوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کسی پر الزام لگانا آسان لیکن اسے ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے‘ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے‘ کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں خفیہ انداز سے نمٹانا پڑتا ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے 33 سماعتیں ہوچکیں ابھی تک اٹارنی جنرل عدالت کو یہ نہیں بتا پارہے 27 وزارتوں میں خفیہ فنڈ کیوں استعمال ہوتا ہے؟۔ جبکہ سپریم کورٹ نے آئی بی کی رپورٹ میں کسی بھی صحافی کو 30 لاکھ روپے سے زائد دینے کی تردید اور رپورٹ خفیہ رکھنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے درخواست گزار کو ہدایت کی پنجاب حکومت گرانے میں آئی بی کے حوالے سے خفیہ فنڈ کے استعمال کے ثبوت 15 مئی تک عدالت میں پیش کئے جائیں۔ دوران سماعت ڈی جی آئی بی کی جانب سے لفافے میں بند ایک رپورٹ بھی پیش کی جس میں عدالت کو بتایا گیا آئی بی نے کسی بھی صحافی کو 30 لاکھ سے زیادہ نہیں دئیے۔ رپورٹ کو خفیہ رکھا جائے کیونکہ اس میں قومی سلامتی کے معاملات ہیں جن کو سامنے نہیں لایا جاسکتا۔ اس پر عدالت نے آئی بی کی جانب سے خفیہ رکھنے کی استدعا کو منظور کرلیا تاہم برہمی کا بھی اظہار کیا کہ قوم کو ان کے پیسوں کے خرچ کی تفصیل بھی بتائی جانی چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے قوم کا پیسہ اسلئے نہیں ہے کہ اسے خرچ تو کردیا جائے مگر اس کا حساب کسی کو نہ دیا جائے۔ ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔ اس حوالے سے عدالت کو تفصیلات بتائی جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...