عنبرین فاطمہ
ماہر تعلیم ”ڈاکٹر محمد افضل“ کی ملک و قوم کیلئے تعلیم وتدریس کے شعبے میں خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔انہوں نے قیام پاکستان سے قبل1941ءمیں ”پنجاب یونیورسٹی“ میں بطور ڈپٹی رجسٹرار اس وقت شمولیت اختیار کی جب مسلمان گھرانوں سے پڑھے لکھے نوجوانوںکیلئے معمولی ملازمت کے حصول میںکامیابی بھی کوئی آسان بات نہ تھی۔ڈاکٹر محمد افضل نے 4مارچ 2005ءکو 85سال کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پائی۔2006ءمیں صدر پاکستان نے ان کی تعلیمی خدمات کے بدلے انہیں”ہلال امیتاز“ سے نوازا۔ حالیہ دنوں میں ملک کے ممتاز ماہر تعلیم کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر محمد افضل ایجوکیشن“ ٹرسٹ کے قیام کا اعلان کیا گیاہے۔ ڈاکٹر محمد افضل کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن کے تعاون سے ”انسٹیٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹیو سائنسز “پنجاب یونیورسٹی نے اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی ہے ۔ ٹرسٹ کا بنیادی مقصد تعلیم کے شعبے میں مستحق طلبا کی اعانت اور تحقیق کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا ہے۔ ایسے طالب علم جو ایوننگ کی کلاسز میں داخلہ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن انہیں مالی وسائل میسر نہ ہوں گے ہیں، ٹرسٹ سکالر شپ پروگرام کے تحت ریپلیکا کے طالب علموں کی مدد کرے گا۔ جو طالب علم انسٹیٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز میں زیر تعلیم ہیں وہ اس ٹرسٹ سے مالی امداد حاصل کرنے کے اہل ہوں گے ،لیکن اس کے ساتھ کہ انہیں اپنا تعلیمی کارکردگی کی شرط کو پورا کرنا ہوگا۔
ٹرسٹ کے زیر اہتمام سکالر شپس ایوارڈ کرنے کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے جس کے تحت گزشہ برس 25سکالرشپس طالب علموں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔اس ٹرسٹ کی چئیر پرسن انسٹیٹیوٹ آف ایڈمنسٹریٹو سائنسز کی سربراہ ڈاکٹر ناصرہ جدون ،ڈپٹی چئیر مین ڈاکٹر جدون،سیکرٹری لبنی فضل جاوید،خزانچی حسن باکر،لیگل ایڈوائزر محمد تسلیم ثناءاللہ اور عبدالرب ہیں۔”ڈاکٹر محمد افضل ایجوکیشن ٹرسٹ “ سے غریب طالب علموں کو نہ صرف تعلیمی اخراجات کےلئے مالی امداد دی جاتی ہے بلکہ ذہین اور مستحق طالبعلموں کوسکالرشپ کے علاوہ رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ایسے طالب علم جو وسائل نہ ہونے کے باعث تعلیمکے سلسلے کو خد ا حافظ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ان کے لئے ٹرسٹ کا قیام کسی خوشخبری سے کم نہیں ہے ۔ بلا شبہ ایسے طالب علموں کےلئے اس ٹرسٹ کی خدمات تعلیم اور بالخصوص ایڈ منسٹریٹو سائنسز کے شعبے کی ترقی میں اہم پیش رفت ثابت ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شعبے کو اختیار کرنے کے بعد سے انہوںنے اپنی زندگی کے 64 برس اس کی ترقی و ترویج کےلئے وقف کئے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل رہا کہ انہوں نے ”پنجاب یونیورسٹی“ سے منسلک دیگر ادارے شہر کی حدود سے باہر قائم کرنے کا تصوربہت پہلے 1942ءہی میں پیش کر دیا تھا۔ ڈاکٹر افضل کو شاندار کارکردگی پر1960ءمیں ”ایل وی وائی لیگ کورنل یونیورسٹی“ میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سکالر شپ پر امریکہ بھجوایا گیا ۔1963ءمیں جب وہ واپس آئے تو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں ”ایڈمنسٹریٹیو سائنس“ کا شعبہ قائم کیا۔1971اور 1972ءان کی زندگی کے مشکل ترین سال تھے جب وہ اپنے ساتھیوں کی سیاست کا شکار ہوگئے اور انہیں یونیورسٹی میںان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔اسی دوران ایک حادثے میںان کی ایک آنکھ کی بینائی ختم ہوگئی۔ ان حالات میں وہ کویت چلے گئے جہاں انہیں ایک ”سائنٹفک ریسرچ “کے ادارے کو قائم کرنے کی پیشکش کی گئی۔جہاں انہوں نے ”سائنٹنک ریسرچ“ کے ادارے میں پانچ برس تک بطور” ڈائریکٹر“ خدمات انجام دیں۔1978ءمیں وہ صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کے کہنے پر وطن واپس آگئے تو انہیں”ہائر ایجوکیشن کے صدر “کے طور پر منتخب کیا گیا۔1981ءمیں وہ شہرت کی بلندیوں پر تھے جب وہ تعلیم کے ”وفاقی وزیر بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ”مجلس شوریٰ“ کے رکن بھی نامزد کئے گئے۔دسمبر2003ءمیںان کی تعلیمی خدمات کے بدلے میں ”آغاخان یونیورسٹی“ کے ”چانسلر پرنس کریم آغا خاں“ نے انہیں اعزازی ایوارڈ سے نوازا۔