ہمارے مسائل اور ان کا حل

آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جرائم میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بیروز گاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے- بعض علاقوں میں تو خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کراچی اور خیبر پختونخواہ وغیرہ میں قانون کی حکمرانی کو خوفناک دھچکا لگا ہے- آئے دن کراچی میں قتل ہوتے رہتے ہیں میرے نزدیک پاکستان کی بدامنی کی سرفہرست وجوہات میں بے روزگاری، جہالت، فحاشی، بے انصافی، پسماندگی اور قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی شامل ہے۔ ان وجوہات کے علاوہ بیرونی اثرات بھی موجود ہیں۔
 بھارت کھل کر پاکستان میں خانہ جنگی میں معاون بنا ہوا ہے بھارت کشمیر کے مسئلے سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کیلئے اس کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کر رہا ہے۔ میری سوچی سمجھی رائے میں بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ۔ سارے برصغیر کو وہ بھارت ماتا کا درجہ دیتا ہے 1971ء کی جنگ کے خاتمے پر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ اس نے کامیابی سے نظریہ پاکستان کو بحر ہند میں ہمیشہ کیلئے غرق کر دیا ہے۔ ہمارے حکمران بھارتی چالوں کو سمجھنے سے قطعی طور پر عاری ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے کارکن پاکستان کے کونے کونے میں بھیس بدل کر آ چکے ہیں۔ ہمارے گھر کے اندر داخل ہو کر ’’را‘‘ ہمیں نقصان پہنچانے میں مصروف عمل ہے۔ بلوچستان میں بھاری تعداد میں بھارتی جاسوس آ گئے ہیں۔ یہ بھارتی جنگجو خالی ہاتھ نہیں آئے ہیں بلکہ اپنے ساتھ بے حساب دولت اور اسلحہ لائے ہیں۔ افغانستان کو بھارت نے اپنا اڈا بنا رکھا ہے افغانستان کے اس اڈے سے بھارت ہمیں ناقابل تلافی جانی نقصان پہنچا رہا ہے۔ ہمارے حکمران بھارت کی ان چالوں کا اپنے پاس کیا جواب رکھتے ہیں؟ افغانستان کے لوگ پاکستانیوں کے بھائی ہیں۔ ان بھائیوں کو ساتھ ملانے کیلئے حکمرانوں نے آج تک کوئی کام نہیں کیے ہیں۔ ہمیں اپنے افغان بھائیوں کے دلوں کو قابو کرنا ہو گا۔ افغان لوگ پاکستانیوں کے گہرے رشتہ دار ہیں۔ دونوں افغانی اور پاکستانی دراصل ایک ہی قوم ہیں۔ دل کی گہرائی سے جب ہم افغانوں کا ہر کام میں ساتھ دیں گے تو وہ بھی ہمارا ہر صورت میں ساتھ دیں گے آج تک افغانستان کے متعلق ہماری کوئی بھی بیرونی پالیسی کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے سیاستدانوں نے افغان پالیسی پر کوئی گہرائی میں کام نہیں کیا ہے۔ افغان بھائیوں کے دل جیتنے کیلئے ہمیں اپنے خزانوں کے منہ افغانستان کی طرف کھولنا ہوں گے۔ ہمیں بڑھ چڑھ کر افغانستان کی معاشی ترقی کیلئے وہاں پر سرمایہ کاری کا کام وسیع پیمانے پر کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے پاکستان کو پشاور سے کابل تک آٹھ لائنوں کی شاندار ’’موٹر وے‘‘ کی تعمیر کا کام جلد از جلد مکمل کرنا ہو گا۔مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہم ایمانداری سے افغانستان کے ساتھ برادرانہ سطح پر تعلقات قائم کرنا چاہیں تو مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے کہ افغان بھی ہمارے ساتھ تعلقات کیلئے تعاون نہیں کرینگے۔ افغان لوگوں کے ساتھ عام پاکستانیوں کی رشتہ داریاں قائم ہیں۔ ان رشتہ داریوں میں اور اضافے کی ضرورت ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو گہری نگاہ سے دیکھیں کس طرح ساری دنیا کی اقوام نے مل کر ’’یو ایس اے‘‘ کو دنیا کی واحد سپر پاور بنا دیا ہے۔ امریکہ میں برابری کے اصول کے عین مطابق ہر امریکی شہری کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی انصاف کی عدالتوں نے انصاف کرکے دنیا کی مختلف اقوام کو ایک قوم میں بدل ڈالا ہے۔ میرے نزدیک امریکہ کے تمام قسم کے شہریوں سے ایک طرح کا انصاف کرنا کسی بڑے معجزے سے کم نہیں ہے۔ وہاں قانون سب کیلئے برابر ہوتا ہے۔ ’’قانون اور آئین‘‘ سے کوئی بھی امریکی اوپر نہیں ہو گا۔ صدر امریکہ سے لے کر سب سے نیچے ریاستی ملازم کے ساتھ ایک طرح کی زندگی سے متعلقہ حقوق ہوتے ہیں۔ امریکی صدر بھی اگر کسی قانون کی خلاف ورزی کریگا تو وہاں کا قانون فوراً حرکت میں آجائیگا۔
پاکستانی قوم کو بھی اپنے ہاں قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی۔ اس کے بغیر ہم کبھی دنیا کی ایک عظیم قوم نہیں بن سکیں گے۔ سب سے پہلے پاکستان میں حکمران طبقہ کو معاشی انصاف کرنا پڑے گا۔ ہر پاکستانی زندگی کا حق رکھتا ہے۔ ہر پاکستان کو اچھی زندگی صرف اس وقت ہی مل سکے گی جب اس کو روٹی کپڑا مکان صحت تعلیم حفاظت، دینے کے انتظامات وقتی حکمران کریں گے۔ 1973ء کا آئین پاکستان ہمارے سامنے موجود پڑا ہے۔ آئین کی ایک ایک شق پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو ہماری قوم کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہماری قوم کا اس وقت اہم ترین مسئلہ پوری پاکستانی قوم کو بامقصد تعلیم سے آراستہ کرنا ہے۔ آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان میں 100% پڑھی لکھی قوم کو پیدا کرنا ہی ہمارے تمام قسم کے مسائل کا واحد موثر ترین حل ہے۔ اس تعلیمی منصوبے پر جنگی بنیادوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لاکھوں اور پرائمری مڈل ہائی سکول پاکستان میں کھولنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو معقول تنخواہ دو۔ ان کو ’’وی آئی پی‘‘ کا درجہ دو۔ ان اساتذہ کا احترام کرنا ہر پاکستانی پر لازم ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں سارے پاکستان میں ’’ذہنی انقلاب‘‘ پیدا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پھر اپنی بات کو میں دھراتا ہوں کہ بامقصد تعلیم ہی ہماری مکروہ جہالت دقیانوسی خیالات کو ختم کرسکے گی۔ جدید ترکی، کوریا، امریکہ اور یورپی ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

ای پیپر دی نیشن