اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +آن لائن) سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان قرار دینے اور صوبوں میں مادری زبانوں کے ترویج اشاعت اور نفاذ بارے وفاق اور صوبوں سے 20 مئی تک ٹائم فریم مانگ لیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ 42 سال گزر گئے اردو کے حوالے سے آئین پر عمل نہ ہو سکا۔ اگر سرکار نے آئین و قانون کی پاسداری نہیں کرنی تو پھر باقی عوام کو بھی اس کی پاسداری سے آزاد کر دے۔ عوام کے پیسوں سے تنخواہ لینے والی سرکار اور ہم آئین پر عمل کرنے کے خود بھی پابند ہیں۔ ہم صرف کاغذوں کی حد تک آزاد ہیں مگر حقیقت میں ہم آج بھی محکوم ہیں۔ 42 سال کا حساب کون دے گا ۔ ججز اور وزیر اعظم آئین پر عمل درآمد کے لئے آئین کی پاسداری کا حلف لے چکے ہیں۔ دو ہفتے کی مہلت نہیں دے سکتے، اردو کو دفتری زبان قرار دینے کا معاملہ کسی امتیازی مضمون کی طرح ہر گز نہیں ہے کہ مرضی ہو تو اپنا لیں اور مرضی نہ ہوں تو چھوڑ دیں، آج بھی عدلیہ کے ممبران سمیت انگریزی زبان سمجھنے والے انتہائی کم ہیں۔ 45 فیصد طبقے کی آدھی زندگی انگریزی سمجھنے میں لگ جاتی ہے۔ اردو رابطے کی زبان ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اردو پر کام کئے بغیر اس کو نافذ نہ کر دیا جائے ۔ انگریزی کو بالکل ہی نہ چھوڑ دیا جائے کہ ہم سب جاہل بن جائیں ۔ صوبے بھی آئین پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ انگریز نے جب لاہور میں انگریزی نافذ کی تو 97 فیصد پڑھی لکھی آبادی نئی زبان کی وجہ سے ان پڑھ ہو کر رہ گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین کو اہمیت نہ دینا محکوم ہونے کی بہت بڑی علامت ہے ۔ 1947 میں پتہ چلا کہ ہم آزاد ہو گئے مگر آج لگتا نہیں اعوان صاحب کو کوئی لفٹ نہیں کراتا۔ سیکرٹری اطلاعات اور سیکرٹری کابینہ ڈویژن کیوں تعاون نہیں کرتے۔ سیکرٹری اطلاعات پیش ہوں گے ، ایڈیشنل سیکرٹری کابینہ ڈویژن بھی پیش ہوں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے اجلاس طلب کیا ہے ورک پلان بن جائے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ 1983 میں تین تجاویز دے دی گئیں۔ 33 سال گزر گئے ابھی تک ان پر کچھ نہیں کیا گیا ۔ کوئی سنجیدہ نہیں لگ رہا اگر آئین کی پاسداری سرکار نے نہیں کرنی تو پھر کوئی اخلاقی اتھارٹی باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ لوگوں سے آئین کی پاسداری کرا سکیں۔ یہ حکومتی بنیادی حق ہے کہ وہ آئین پر عملدرآمد کرائے ہم تو کہہ کہہ کر تھک گئے ۔ بیوروکریسی کے ذریعے جمہوریت چل رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکرٹری اطلاعات اس معاملے کے ذمہ دار ہیں۔ سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ 2005 میں سفارشات مرتب کی گئی تھی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وفاق قومی زبان کی ترویج کرنے کا پابند ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ آئینی معاملے میں ہماری معاونت کریں ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود جائزہ لیتے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا یہ چیز ایسی نہیں ہے۔ وزیر اعظم صاحب بھی اس آئین کی پاسداری کا حلف لے چکے ہیں ہم نے بھی لیا ہے۔ اس کی عملداری تو کرنا ہو گی۔