ہم اندر سے مر رہے ہیں

ہم میں ہر دوسرے شخص کے اندر ایک بے پناہ صلاحیتوں کا مالک انسان موجود ہے لیکن ہم اس انسان سے ساری عمر ملاقات ہی نہیں کرپاتے۔ اسے ہم ایک کال کوٹھری میں ڈالتے ہیں اور پھر دنیا کے بکھیڑوں اور رنگوں میں گم ہو کر اسے بھول جاتے ہیں۔ بیچارہ کہیں اندر ہی گل سڑکے مر جاتا ہے۔ ہمارے اردگرد اس قدر شور ہوتا ہے کہ ہمیں اس اندر کے انسان کی آہ و بکار اور چیخیں سنائی ہی نہیں دیتیں اور اگر غلطی سے سنائی بھی دے دی جائیں تو ہم اسکی آزادی کے لئے جدوجہد نہیں کرتے۔ ابا کے ایک چچازاد ظفر اقبال ملک فارسی، عربی، اردو تین زبانوں میں شاعری کرتے تھے۔ انکے پاس اتنا علم تھا کہ وہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بیٹھ کر گفتگو کرتے اور سننے والا بیزار نہ ہوتا۔ ان کی لکھی ہوئی چیزیں انکی وفات کے بعد بے ترتیب ملیں۔ کہیں اخبار کے سفید کناروں پر کوئی شعر لکھا ہے تو کہیں کسی کاغذ کی چٹ پر۔ انکے لکھے گئے بہترین مضامین شاندار موضوعات کے ساتھ ادھورے ملے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے لکھے ہوئے کو کبھی کتابی صورت نہیں دی۔ انکی شاعری، ان کا علم، انکے لکھے مضامین کسی کے کام نہ آسکے، وہ سب کچھ ساتھ ہی لے گئے۔ وہ ایک کامیاب لکھاری بن کر سینکڑں لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہو سکتے تھے۔ انکے اندر ایک لکھاری، ادیب اور شاعر موجود تھا۔ انکی شاعری بلند پایہ تھی۔ بعض اوقات انکے فارسی کلام پر گمان ہوتا کہ علامہ اقبال کی شاعری ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے اندر قید بے پناہ صلاحیتوں کے مالک انسان سے کبھی ملاقات نہیں کی۔ اسے آزاد کروانے کی جدوجہد نہیں کی اورخود کو حالات کی ستم ظریفیوں کے سپرد کردیا۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے پاس سوچنے کا وقت ہی نہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمارے وجود کی حقیقت کیا ہے؟ ہم میں ایسی کونسی صلاحیت رکھی ہے جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے؟ ہم میں دوسروں سے الگ ایسا کون سا فنکار ہے جسے استعمال کر کے ہم اوج کمال تک پہنچ سکتے ہیں؟ زیادہ تر والدین کو خود اس کا شعور نہیں، وہ بچوں کی پرورش اس نہج پر کرتے ہی نہیں کہ بچے اپنی زندگی کا مقصد کو پہنچان سکیں۔ نہ ہمارا نظام تعلیم ایسا ہے جو بچوں کے اندر اس شعور کو اجاگر کرے اور نہی بدقسمتی سے ہمیں کوئی اچھا لیڈر میسر آیا ہے جو ہماری فکری تربیت کرے۔ مجموعی طور ہم زندہ نہیں ہیں۔ جاندار چیزیں پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہیں۔ ہم پھیل تو رہے ہیں لیکن پھلنے پھولنے کا عمل رک چکا ہے۔ یعنی ہمارے اندر سوچنے اور فکر و تدبر کاعمل رک چکا ہے۔ کسی بھی قوم کے زوال کی وجہ فکر و تدبر اور حکمت کا مر جانا ہے۔ ہمارے ہاں حکمت ناپید ہوچکی ہے۔ ہم بہت سطحی سے لوگ ہیں۔ ہماری فکری نشونما نہیں ہورہی ۔ ہم شعوری طور پر ایک لالی پاپ کھانے والے بچے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ چاہئے ہی نہیں۔ دولت، سٹیٹس، برانڈڈ کپڑے، جوتے، ہلہ گلہ موج مستی، زندگی کا مقصد اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

میں نے چار سال یونیورسٹی جانے کیلئے بس کا سفر کیا ہے۔ صبح سویرے اس میں بہت سے ملازمت پیشہ خواتین اور یونیورسٹیز کی نوجوان طالبات سوار ہوتیں۔ یہ تمام خواتین اس ایک گھنٹے کے سفر کے دوران کانوں میں ہینڈ فری گھسائے مسلسل گانے سنتیں۔ واپسی پر بھی یہی ہوتا۔ میری بہت سی دوستیں بھی اسی عمل کا حصہ ہیں۔ یونیورسٹی کے گراﺅنڈ میں بیٹھے ہوئے آپس میں گپ شپ کی بجائے زیادہ تر لڑکیاں موبائل فونز پر مصروف رہتیں یا پھر کانوں میں ہینڈ فری گائے گانے سنتی رہتی تھیں۔ اس دوران انکے اندر کونسی تعمیری، سوچ جنم لے سکتی ہے؟ انکے اندر غورو فکر اور تدبر کا کون سا عمل جاری رہ سکتا ہے؟ ہماری تو آپس کی گفتگو بھی تعمیری نہیں ہوتی، ہم لباس، گھر، گاڑی، یا سیاست سے آگے کوئی فکری اور عملی گفتگو کرتے ہی نہیں۔ نہ ہم اپنا احتساب کرتے ہیں، نہ ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں نہ ہی ہم اپنے اندر کے انسان سے ملاقات کرتے ہیں۔ پوری قوم سٹیٹس کا نشیس ہوچکی ہے لیکن اپنے تشخص، اپنی گمشدہ میراث حکمت، اور اپنے فکری اور عملی زوال کی کسی کو فکر نہیں۔ جس سے پوچھتے ہیں وہ شاعر ہر ادیب ہے لکھاری ہے مصنف ہے لیکن جب ہم اسے پڑھتے ہیں تو وہ حقیقت میں ایک فریب ہے۔ جس سے پوچھتے ہیں وہ ایک کامیاب انسان ہے لیکن جب اس کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کی کامیابی بینک بیلنس، بنگلہ اور گاڑی ہے۔ یعنی کامیابی کا معیار اتنا خود غرضی پر مبنی ہے کہ ہماری کامیابی اپنی ذاتی دولت اور سٹیٹس تک محدود ہوچکی ہے۔ لیڈر سے لے کر عام آدمی تک کا ہر عمل ذاتی مفادات پر مبنی ہے۔ کسی کا عمل وسیع تر قومی اور عوامی مفاد اور فلاح کا نہیں رہا۔ چند دن پہلے اپنی یونیورسٹی میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے ملاقات ہوئی۔ مجھ سے کہنے لگیں میں تھر کے بچوں کےلئے کچھ کرنا چاہتی ہوں میں بہت عرصے سے سوچ رہی ہوں لیکن میں اکیلی کیا کر سکوں گی۔ بس یہی سوچ کے چپ ہو جاتی ہوں۔ یہ جملے میں کئی لوگوں کے منہ سے سن چکی ہوں۔ ہمیں اس اکیلے پن کا خوف اسی وجہ سے ہے کہ ہم اپنے اندر کے کامیاب انسان سے بہت دور ہیں۔ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے نا آشنا ہیں۔ ورنہ دنیا میں ہر بڑا کام کرنے والا تنہا ہی کسی کام کو شروع کرتا ہے۔ ہر شخص تنہا ہے لیکن اسکی صلاحیتیں اس کی ساتھی ہیں اللہ تعالی نے کسی شے کو جب بے کار پیدا نہیں کیا تو ہم کیوں بے کار جیتے ہیں۔ ہم نے کیوں اپنی زندگیوں کو بے مقصدیت کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔ کیوں ہم اپنے بچوں کو بامقصد زندگی دینے میں ناکام ہیں اس لئے کہ ہمیں اپنی زندگی کے مقصد اوراپنے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک نہیں۔ یہ ادراک اندر کے باصلاحیت انسان سے دوستی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب اردگرد کے شورکو نہ سنا جائے۔ غور و فکر کیا جائے۔ اندر کے انسان سے دوستی کی جائے اسے گلنے سڑنے کیلئے تنہاءچھوڑ دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن