”کرپشن فری معاشرہ اور جمہوریت“

کسی مفکر نے کہا کہ ”ترقی پذیر ممالک وہ بلیاں ہیں جن کے گلے میں جمہوریت کی گھنٹی باندھنے کی ضرورت ہے“ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گھنٹی کے ساتھ ہی ”احتساب“ اور ”جوابدہی“ کے پہلو منسلک ہیں لہٰذا صحیح معنوں میں جمہوریت کا نفاذ درحقیقت اس سوچ کا پرچار ہے جو عوام کی فلاح و بہبود سے منسلک ہو جاتی ہے۔ بلوچستان کے صوبائی سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 67کروڑ کے اثاثہ جات برآمد ہونا ہمارے لئے اس لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کرپشن کے مہلک مرض میں شاید آخری سٹیج تک پہنچ گئے ہیں اور متاثرہ سسٹم کو مصنوعی تنفس سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک انٹرویو میں محترم ضیاءشاہد نے واضح کیا کہ صدیوں سے روبہ زوال معاشرے میں جان ڈالنے کے لئے مخصوص طبقے کی بجائے ایسا مضبوط اور مربوط نظام ہونا چاہئے جو عوام کی فلاح و بہبود سے شروع ہو کر ان پر ہی ختم ہو۔ ہم ایک ایسے تانے بانے میں الجھے ہوئے ہیں کہ جہاں سے سرا گم کر بیٹھے۔ ہمارا مطمع نظر صرف اور صرف دولت کا حصول ہے۔ کوئی بھی یہ بات پوچھنے کو تیار نہیں کہ یہ دولت کہاں سے آئی؟ اور نہ ہی کوئی اپنا محاسبہ کرنے کو تیار ہے۔ ان کے نزدیک کسی نظام میں بہتری کی گنجائش صرف اسی صورت میں موجود ہوتی ہے کہ نظام کو چلتے رہنا چاہئے۔ تاکہ اس نظام کی خوبیاں اور خامیاں ابھر کر سامنے آ سکیں۔ وہ اس بات کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ کرپشن میں لتھڑے ہوئے معاشرے میں ہم اصلاح کی گنجائش کا حق بھی کھو چکے ہیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جاندار اور مستحکم حکومتیں اسی وقت ہی جنم لیتی ہیں جب وہ عوام کو پائی پائی کا حساب دینے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ حضرت عمرؓ سرکاری شمع بھی اسی وقت ہی روشن کرتے تھے کہ جب سرکاری کام ہوتا تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کرپشن فری معاشرہ کی طرف کیسے قدم بڑھایا جا سکتا ہے تو اس کے لئے صاف شفاف عدلیہ کا نظام اور نیب کا موثر رول اہم بنیادی تقاضے ہیں۔ جمہوریت اس وقت صحیح معنوں میں نہیں پنپ سکتی جب تک کہ آپ ایک انصاف دوست عدالتی نظام لے کر نہیں آتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ایک بالک نے اپنے گرو سے کہا کہ مجھے حکومت کرنے کے بہترین اصول بتائیے۔ گرو نے کہا کہ بچہ حکومت کرنا تیرے بس کی بات نہیں۔ لیکن جب بالک مصر رہا تو گرو نے اسے سلطنت کے ایک والی کے پاس بھیج دیا کہ بالک بضد ہے کہ اسے حکومت کرنے کے اصول بتاﺅ۔ والی نے اسے کہا کہ تم آج کا دن پورے علاقے کی سیر کرو لیکن تمہارے ہاتھ میں دودھ سے لبالب پیالہ ہو گا۔ اگر اس کا ایک قطرہ بھی نیچے گرا تو میرا جلاد تمہاری گردن اتار دے گا۔ شام کو جب بالک واپس آیا تو والی نے اس سے کہا کہ آج کا دین کیسا رہا؟ بالک نے کہا کہ سرکار میں کیا خاک سیر کرتا مجھے تو یہی فکر کھائے جا رہی تھی کہ ابھی قطرہ گرا اور میری جان گئی۔ والی نے کہا کہ حکومت کرنا بھی دودھ کے پیالے کی حفاظت کے مترادف ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دودھ کے پیالے کو ہڑپ کرنے کا اصول بنا لیا جو نہ جانے کب سے لاگو ہے۔ اسی لئے سلطنت کا استحکام یا ریاست کی مضبوطی ایک خواب بن کے رہ جاتا ہے۔ کرپشن کی صورتحال نے ہمارے معاشرے میں اس قدر زور پکڑ لیا ہے کہ تمام شعبہ جات اور نظام ہائے حیات میں بری طرح سرایت کر چکی ہے اور اس کے نتائج میں خودغرضی، ذاتی مفادات، حصول زر اور حصول اقتدار جیسے عناصر نے تقویت پکڑی ہے۔ میرا خیال ہے کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی اگر بیوروکریٹس کے گھروں پر چھاپے مارے جائیں تو نتائج شرمناک حد تک برآمد ہو سکتے ہیں اور ہمیں یہ جاننے میں دقت نہ ہو گی کہ ہم کرپشن کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ جہاں زوال کا عفریت منہ کھولے کھڑا نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال اس صورتحال کو جمود سے تعبیر کرتے ہیں کہ جب جدوجہد کوشش اور عمل کا جذبہ ختم ہو جائے اور مقصدیت کا جذبہ ختم ہو کر معاشرے میں دولت پاﺅں پسار لے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ....

کیا جمہور ہے مذہب
کیا جمہور ہی مذہب
کیا سب کھ ہی بکتا ہے؟
کیا جمہور کی خدمت

ای پیپر دی نیشن