ہمارے دامن میں اشک ندامت کے سوا کچھ نہیں....!!

May 14, 2016

سارہ لیاقت....پیغام امید

حالیہ ایک المناک اور افسوسناک واقعہ جس نے ہر درد دل رکھنے والی آنکھ کو اشکبار کر دیا، بنگلہ دیش میں امیر جماعت اسلامی جناب مطیع الرحمان صاحب کو بھی پھانسی کی سزا دےدی گئی اور ہماری حکومت ہمیشہ کی طرح اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے منہ تکتی رہ گئی۔ جب سے حسینہ واجد کو اقتدار ملا ہے اس کا بھارت کی جانب واضح جھکاﺅ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی اوراپنی بھارت نواز پالیسیوں اور بنگلہ دیش کو سیکولر ریاست بنانے کی خواہش میں وہ اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والوں کےلئے عذاب بن گئی ہے، بھارتی اشاروں پر ناچتی یہ خاتون اپنی نفرت کے جذبات میں اس قدر اندھی ہو گئی ہے کہ اپنے پرائے کی پہچان ہی بھول بیٹھی ہے۔ ایک طرف تو اس نے جماعت اسلامی کے رہنماوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور ابھی تک کئی رہنماوں کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے تو دوسری طرف ڈھاکہ میں پاکستانی پرنسپل کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گیا ہے ان کے گھر کو بھی تالا لگا دیا گیا ہے اور کسی سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ مطیع الرحمن نظامی صاحب کی پھانسی سے قبل 2013 سے اب تک کئی جماعت اسلامی کے رہنماوں کو پھانسی کی سزا دی جا چکی ہے جن میں عبدالقادر ملا ، علی احسن محمد مجاہد ، قمر الزماں اور دیگر شامل ہیں ۔ دو ضعیف رہنما دوران قید دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گئے اور مزید تین رہنما کو کسی بھی وقت پھانسی کی سزا سنا دی جائے گی ۔ یہ تمام وہ لوگ ہیں جن کی عمریں ساٹھ ستر سال سے زیادہ ہیں اور ان میں سے اکثریتی پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے بنگلہ دیش کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے وہاں کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ۔ تقریبا پینتالیس برس گزر جانے کے بعد اس ماضی کو بنیاد بنا کر جس میں بنگلہ دیش نامی ملک کا ابھی وجود سامنے نہیں آیا تھا اور یہ لوگ محب وطن پاکستانی تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان کی تقسیم نہ ہو ۔ ان کو مجرم بنا کے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ 1971 کی جنگ کے بعد جب پاکستان دو لخت ہوگیا اور مغربی اور مشرقی پاکستان نے دو علیحدہ ممالک کی شکل اختیار کر لی جو کہ مغربی پاکستان ، ” پاکستان “ اور مشرقی پاکستان ” بنگلہ دیش “ کہلائے اسکے بعد بعد نو اپریل 1974 کو پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ایک سہ فریقی معائدہ طے پایا جس میں پاکستان کی جانب سے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عزیز احمد ، بنگلہ دیش کی طرف سے انکے وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ نے اس سمجھوتے پر دستخط کئے جس میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کے ہاں پھنسے ہوئے شہریوں کی آبادکاری اور محفوظ واپسی پر اتفاق کیا اس سمجھوتے میں یہ بھی طے پایا کہ بنگلہ دیش ماضی کی تلخیوں کو نظر انداز کر کے 195 پاکستانی فوجی افسروں پر انسانیت سوز جرائم کی پاداش میں جنگی جرائم کے ٹریبونل میں مقدمہ نہیں چلائے گا اور1973 میں اس مقصد کے تحت جو خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا ہے اس کو توڑ دیا جائیگا ۔ اس موقع پر بنگلہ دیش کے اس وقت کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان نے کہا کہ انکی خواہش ہے کہ لوگ ماضی کو فراموش کرتے ہوئے نئے دور کا آغاز کریں ۔ پاکستان کا اس تمام صورتحال میں کردار انتہائی شرمناک ہے ۔ محض مذمتی قرار دا د پاس کر دینا یا دفتر خارجہ کے بیان کے ذریعے صرف افسوس کا اظہار کافی نہیں ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نا صرف بنگلہ دیش کے سفیر کو ملک بدر کر کے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا جاتا بلکہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کے سامنے اٹھانے کے ساتھ ساتھ 1974ءکے معائدے کی خلاف ورزی کرنے پر عالمی ادارہ انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جاتا کہ اس غیر انسانی اور غیر قانونی فعل کو روکا جا سکتا لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں نے اس معاملے پر بالکل آنکھیں بند کر رکھی ہیں ، اگر ہمارے حکمران بر وقت کوئی اہم قدم اٹھا لیتے تو کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکتا تھا ۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب کی ہر اس معاملے میں خاموشی کا فی معنی خیز ہے جس کا تعلق کہیں نہ کہیں براہ راست یا بالواسطہ بھارتی تعلقات سے ہے ۔ معاملہ چاہے کلبھوشن یادیو کا ہو یا بنگلہ دیش میں انسانیت سوز واقعات کا ہمارے وزیر اعظم صاحب فورا بے حسی کی حد تک چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ایک طرف تو حسینہ واجد بھارت کے کہنے میں ہمارے محسنوں ، بزرگوں کو پھانسیوں کی سزا سنا رہی ہے دوسری طرف نواز شریف کی مودی سے محبت کا یہ عالم ہے کہ کبھی ساڑھیوں کا تحفہ بھجوایا جاتا ہے تو کبھی آموں کا اور صرف یہ ہی نہیں مودی کو بھی نواز شریف کی محبت رائیونڈ کھینچ لاتی ہے ۔ چند ماہ قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے نواز شریف سے ملاقات میں کہا کہ نواز شریف صاحب ! جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماوں کی پھانسیاں رکوانے کیلئے کچھ اقدامات کریں جس پر وزیر اعظم صاحب سراج الحق صاحب کا مطالبہ سن کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر کہنے لگے سراج الحق صاحب مجھے ان پھانسیوں پر بہت افسوس ہے اور پھر چپ ہو گئے ۔ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردگان ہمیشہ کی طرح سے اس معاملے پر بھی بازی لے گئے نہ صرف مذمتی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ” میں ایسی سوچ کی مذمت کرتا ہوں جس سوچ کے تحت 70سالہ بوڑھے شخص کو ایسے جرم کی سزا دی جاتی ہے جو کہ میری نظر میں کوئی جرم بنتا ہی نہیں ہے ۔ اس قسم کے اقدامات مزید نفرت میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ ایسے اقدامات ہی شدت پسندوں کو جنم دیتے ہیں۔“ بلکہ احتجاجا بنگلہ دیش سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا ہے۔ ایک ہمارے وزیر اعظم ہیں، کوئی عملی قدم اٹھانا تو دور کی بات نواز شریف نے تو اپنے منہ سے کوئی مذمتی بیان تک نہیں دیا کہیں بھارت ناراض نہ ہو جائے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما انتہائی دلیری اور عاجزی کے ساتھ موت کا سامنا کرتے ہوئے جس طرح مر کے بھی امر ہوگئے اس طرح کا مرتبہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو اﷲ کی نظر میں خاص ہوتے ہیں ۔

مزیدخبریں