اسلام آباد (نوائے وقت نیوز/ ایجنسیاں) بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر گرما گرم بحث ہوئی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا کہ پوری دنیا اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے تمام اداروں نے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی کی مذمت کی ہے۔ بنگلہ دیش میں غیرمنصفانہ ٹرائل کیا گیا اڑھائی تین سال سے بنگلہ دیش میں یہ عمل جاری ہے۔ یہ معاملات انسانی حقوق کونسل اور عالمی برادری کے ساتھ اٹھائیں گے۔ بنگلہ دیش کے حالیہ اقدامات کو اسلامی دنیا میں بھی پذیرائی نہیں ملی۔ دوسری جانب چیئرمین سینٹ نے کہا کہ یہ کسی دوسرے ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر بحث نہیں کر سکتے۔ انہوں نے دوستی ایک التوا مسترد کر دیں۔ سینٹ میں حصہ لیتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ارکان نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے یہ پوری قوم کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مطیع الرحمن جیسے عالم دین کی شہادت پر سب کے دل غمزدہ ہیں۔ اڑھائی تین سال سے بنگلہ دیش میں یہ عمل جاری ہے۔ ترکی نے بنگلہ دیش سے سفیر واپس بلا لیا ہے اور سخت احتجاج کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں غیرمنصفانہ ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے پاس ججوں کو ہٹانے کی طاقت ہے اس لئے ایسے فیصلے آ رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نے ماضی کو بھلا کر آگے کی طرف دیکھنے کا معاہدہ کیا تھا مگر سیاسی مخالفین کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی اور کے پی کے اسمبلی نے مذمتی قراردادیں منظور کی ہیں۔ ہم نے بنگلہ دیش سے سخت احتجاج کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے عوام کے درمیان رابطوں میں رکاوٹیں ہیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ اقدامات نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی برادری میں بھی نامقبول ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دے کر 45سال پرانے زخموں پر نمک چھڑکا گیا، اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں ہیجان پیدا ہو گیا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے سراج الحق اور نہال ہاشمی کی تحریک التوا مسترد کر دیں۔ سرتاج عزیز نے کہاکہ بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ 74ء کے وعدہ کی خلاف ورزی کی۔ پھانسیاں بنگلہ دیش کے سیاسی اور عوامی مفادات کیخلاف ہیں۔ بنگلہ دیش کو نظرثانی کرنی چاہئے، عالمی برادری کو معاملے کا نوٹس لینا چاہئے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ بنگلہ دیش کے قیام کی ابتداء اشرافیہ کی جانب سے برابری کو ترک کرنے اور جمہوری قدروں سے انحراف سے ہوئی۔ بنگلہ دیش کے قیام کی ابتداء اس وقت ہوئی جب اشرافیہ نے برابری کو ایک طرف رکھتے ہوئے جمہوری قدروں سے انحراف کیا۔ قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ پاکستان توڑنے میں مرکزی کردار بھارت کا ہے، اندرا گاندھی نے کہا کہ دو قومی نظریہ کو ہم نے دفن کر دیا ہے، خونریز علیحدگی کے وقت نہ کہیں انصاف تھا، نہ انسانیت، پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا کیا گیا، ایک مخصوص طبقے نے پاکستان کے خلاف سازش کی، بنگالیوں کی بہت بڑی اکثریت پاکستان سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتی تھی، حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے، بنگلہ دیش میں پاکستان کو خراب شکل میں پیش کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے، بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہماری کوشش ہونی چاہئے، بڑی تعداد میں ایسے بنگالی ہیں جو پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ مطیع الرحمان نظامی کی شہادت کا معاملہ بہت اہم ہے، نئی نسل کو اس کی تاریخ سے آگاہ ہونا چاہئے، بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی اکثریت آج بھی پاکستان کے حق میں ہے، ایک خاص ذہنیت پاکستان کے خلاف ہے، ملک ٹوٹنے کے پیچھے بڑی داستان ہے، پاکستان بنانے میں اصل کردار بنگالیوں کا تھا، ہمارے ایک حکمران نے ان کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے جو تاریخ کا حصہ ہیں، پانچ میں سے چار صوبوں میں پیپلز پارٹی ہار گئی تھی، ہم جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں لیکن جمہور کی رائے لکھی گئی۔ کرکٹ کے 12 کھلاڑیوں میں ایک بھی بنگلہ دیش کا نہیں تھا، کہا جاتا تھا ان کے قد چھوٹے ہیں۔ بنگلہ دیش میں غدار بھی تھے جنہوں نے مکتی باہنی بنائی۔ بنگالیوں سے زیادتیاں کی گئیں، ہمیں ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ 2002ء کے الیکشن میں کرنل اور میجر سیاسی امیدواروں کے انٹرویو کرتے تھے، کیا یہ الیکشن تھے، آج بھی ٹویٹس ہوتے ہیں، بنگلہ دیش میں مرضی کی عدالتیں بنا کر مرضی کے فیصلے لئے گئے، لگتا ہے کہ حسینہ واجد کو دنیا کہیں امن کا نوبل انعام نہ دے دے، ساری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اسے روک نہیں رہی۔ ستر ستر، اسی اسی سال کے بزرگوں کو پھانسی چڑھایا جا رہا ہے۔ مطیع الرحمان نظامی، پروفیسر غلام اعظم پنڈی میں ٹانگوں پر پھرتے تھے، یہ صرف بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں، حسینہ واجد کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے، بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ ملوث ہے، ترکی نے اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا کر قائدانہ کردار ادا کیا ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ہمیں اس معاملے پر متحرک کردار ادا کرنا چاہئے، وزیراعظم نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مطیع الرحمان نظامی جمہوری اداروں اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے‘ وہ دو قومی نظریہ اور پاکستان کی جنگ لڑ رہے تھے‘ پاکستان سے محبت رکھنے کی بناء پر صلاح الدین چوہدری سمیت 70,70 اور 80,80 سال کے لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ شفاف اور منصفانہ ٹرائل کے بغیر یہ کارروائی کی گئی‘ دنیا کے کسی ملک نے انہیں قبول نہیں کیا۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کو سزا دی جارہی ہے۔ مطیع الرحمن سقوط ڈھاکہ سے قبل پاکستان کے بھی شہری تھے اور پاکستان کی بقاء اور دو قومی نظریے کی جنگ لڑتے رہے پاکستان سے مخاصمت اور بھارت کو خوش کرنے کیلئے ٹریبونل قائم کیا گیا جس کو بنیاد بنا کر پے درپے پھانسیوں کا سلسلہ جارری کھا ہوا ہے۔ مطیع الرحمان نظامی کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ایوان بالا کو مطیع الرحمان نظامی کے قتل کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ترکی نے جس طرح اپنا سفیر واپس بلایا ہے ہمیں بھی اپنا سفیر واپس بلانا ہوگا ۔سقوط ڈھاکہ میں ہماری بھی کچھ غلطیاں تھیں۔ حسینہ واجد اور ان کا ٹولہ وہ سانپ ہیں جنہوں نے پاکستان کو ڈسا ہے۔ حسینہ واجد جیسے لوگوں نے مکتی باہنی سے مل کر ملک کو دولخت کیا اور بھارت اور ’’را‘‘ سے مل گئے۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ بعض لوگوں کی بداعمالیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے ملک ٹوٹا‘ ہمیں مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی کے خلاف شدید احتجاج کرنا چاہیے۔ قوموں کے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ افراد کی غلطیوں کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔ مطیع الرحمان نظامی کے درجات کی بلندی کیلئے دعا گو ہیں۔