تحریک پاکستان کے نامور رہنما اور شاعر مولانا حسرت موہانی 1878ء کو بھارت کے آبائی گائوں موہان ضلع اناؤ (یو۔ پی) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید فضل الحسن تھا آپ نے مڈل اور میٹرک کے امتحان میں امتیازی کاپیاں حاصل کرنے کے بعد وظیفہ کی سند کے ساتھ علی گڑھ میں داخل ہوئے۔ جہاں آپ کا شمار اپنے دور کے ممتاز طلبہ میں ہونے لگا۔ اسی دوران آپ شعرائے سخن میں بھی گہری دلچسپی رکھنے لگے۔ آپ نے 1903ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ جس کے بعد آپ نے تعلیمی سرگرمیوں کو خیرباد کہتے ہوئے قومی خدمت کیلئے خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کا تحریک آزادی کیلئے حوصلہ اور جذبہ بہت بلند نکلا۔ آپ نے برطانوی استعمار سے ہندوستان کی آزادی کو اپنا مقصد حیات قرار دیا۔ انہوں نے بڑی جرت مندی اور بہادری سے مسلم قوم میں سیاسی بیدار پیدا کرنے کیلئے نے ایک رسالہ بھی جاری کیا جس کا نام ’’اردو معلیٰ‘‘ تھا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ’’اردو معلیٰ‘‘ میں 1908ء کی ایک اشاعت میں ایک مضمون مصر کے نامور رہنما مصطفیٰ کمال کے بارے میں شائع ہوا، جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر شدید تنقید کی گئی تھی، جس کے جواب ان کے خلاف مقدمہ دائر ہوا جس کے جواب میں انہیں دو سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کی سزا دی گئی۔
جرمانہ میں مولانا حسرت موہانی کا کتب خانہ تک نیلام ہو گیا۔
جیل سے رہائی کے بعد مولانا حسرت موہانی نے سیاست میں سرگرم حصہ لیتے ہوئے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔
مولانا حسرت موہانی ایک بہترین شاعر، ادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مفکر و مدبر اور بالغ نظر سیاستدان بھی تھے آپ بڑے محقق، صوفی عالم بھی تھے آپ انتہائی خاکسار، انتہائی خود دار، حق بیں اور حق پرست، بے لوث و بے باک، سرفروش سپاہی اور پرجوش سپہ سالار، جرات اظہار اور جرت عمل کا شاندار نمونہ تھے آپ کو عربی، فارسی و دیگر زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا آپ نے جنگ طرابلس، جنگ بلقان اور مسجد مچھلی بازار کانپور کے واقعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1914ء میں آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ آپ ملک کی کامل آزادی کے سچے علمبرداروں میں سے ایک تھے۔
1920ء میں آپ نے احمد آباد کانگریس کے اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے ہندوستان سے آزادی کیلئے تجویز پیش کی جس کے جواب میں گاندھی جی اور دوسرے لیڈروں کی سیاسی مصلحتوں نے اس تجویز کو کسی صورت منظور نہ ہونے دیا۔ آپ نے اپنی روز وشب کی انتھک محنت کے بل بوتے پر 1937ء میں مسلم لیگ میں آزادی کامل کی قرار داد کی منظوری کرائی اس دوران آپ بانی پاکستان قائداعظمؒ کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ آپ کا شمار قائد کے ان چند مخلص دوستوں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے پاکستان کی آزادی کیلئے اپنی صدا کو بلند کرتے ہوئے مسلم عوام میں آزادی کے شعور کو بیدار کیا۔ آپ کی وفات 13 مئی 1951ء کو ہوئی اور آج ان کی 80 ویں برستی ہیں وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔