عمران ہمارا لاڈلا نہیں کیوں بدنام کیا جا رہا ہے : چیف جسٹس‘ قرضے معاف کرانیوالے تمام 222 افراد 8 جون کو طلب

اسلام آباد (آن لائن‘ آئی این پی‘ صباح نیوز ) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عمران خان ہمارا لاڈلا نہیں، بار بار یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ عدالت عمران خان کے ساتھ کوئی خاص سلوک کر رہی ہے ، ہم نے عمران خان کو کب لاڈلا بنایا کہاں ریلیف دی ،عدالتوں کو کیوں بدنام کیا جارہا ہے۔ اتوار کے روز سپریم کورٹ میں بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیر اور تجاوزات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے وفاقی وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژ ن (کیڈ) طارق فضل چوہدری کو روسٹرم پر طلب کر لیااور چیف جسٹس نے کہا کہ بنی گالہ کیس کے حوالے سے کی جانے والی بیان بازی درست نہیں۔ بلائیں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کو، انہیں ان کا بیان دکھاتے ہیں۔ عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہامریم اورنگزیب وفاقی وزیر ہیں وہ کیسے ایسے بیانات دے سکتی ہیں ۔اس ایشو پر کھیلنے کے لیے معاملہ کابینہ کو نہیں بھیجا گیا ۔چیف جسٹس نے کہا تجاوزات کے خلاف کارروائی حکومت نے کرنا ہوتی ہے، حکومت خود کارروائی نہ کرے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ بار بار یہ تاثر کیوں دیا جا رہا ہے کہ عدالت عمران خان کے ساتھ کوئی خاص سلوک کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے طارق فضل چوہدری کو مخاطب کرتے ہوے کہا کہ وضاحت دیں ورنہ آپ کیخلاف کارروائی کروں گا، حکومت نے کہا کہ بہت بڑی تعداد میں تعمیرات ہو چکی ہیں اتنے بڑے پیمانے پر کی گئی تعمیرات کو مسمار نہیں کیا جاسکتا ۔، بتایئے یہ تعمیرات ریگولر کرنے کافیصلہ کس کا تھا کیا عدالت نے تعمیرات کو ریگولرائز کا کرنے کا فیصلہ دیا ؟اس پر وزیر مملکت طارق فضل چوہدری نے عدالت میں اعتراف کرتے ہوے کہا کہ تعمیرات ریگولر کرنے کا فیصلہ ہم نے کیا، عدالت نے بنی گالا تعمیرات ریگولر کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کہاں عمران خان کو لاڈلا بنا دیا، ہم نے کہاں عمران خان کو رعایت دی؟ طارق فضل چوہدری نے کہا کہ عمران خان نے اپنے گھر کی جو دستاویزات جمع کرائیں ان کی تصدیق نہیں ہو سکی، کیس عدالت میں تھا اس لیے کچھ نہیں کیا ،چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ہے تو تحقیقات کرا لیں، ریاست جو چاہے فیصلہ کرے، جب تک منظور شدہ پالیسی غیر مناسب نہ ہوئی ہم مداخلت نہیں کریں گے۔دوران سماعت طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ بنی گالہ تعمیرات سے متعلق سمری بھیجی جا چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نالے پر غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا پہلے بھی کہہ چکے ہیں، معاملے پر دو روز میں وفاقی محتسب کو درخواست دی جا سکتی ہے۔ وفاقی محتسب کورنگ نالہ پر متنازعہ جائیداد کا فیصلہ کرے گا۔عدالت نے بنی گالا تعمیرات کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔دریں اثناءسپریم کورٹ نے بینکوں سے قرض معاف کروانے والے 222 افراد کو8جون کو طلب کر لیا۔ بینکوں سے قرض معاف کرانے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ گورنرسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کمشن سمری جمع کروا دی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گورنر سٹیٹ بینک خود کہاں ہیں؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا 222 افراد نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کروائے۔عدالت نے قرضے معاف کروانے والے 222 افراد اور کمپنیوں کو نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے تمام افراد کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرضے معاف کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی۔ کمشن کے مطابق 222 افراد نے خلاف ضابطہ قرضے معاف کروائے ہیں اور ہم ان 222 افراد کو نوٹس جاری کرینگے جو کمیشن قرضہ معافی کے حوالے سے بتایا گیا تھا اس نے بھی 222 افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا تمام 222 افراد حاضر ہو جائیں کسی کی غیرحاضری قابل قبول نہیں ہو گی۔ ان لوگوں نے 84 ارب روپے کے قرضے معاف کروائے ہیں۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے حکم پر نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ ( این آئی سی ایل) کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی کو گرفتار کرلیا گیا۔این آئی سی ایل میں مبینہ کرپشن کیس کی سماعت کے آغاز پر پر این آئی سی ایل کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرا ملزم محسن حبیب وڑائچ کہاں ہے ، نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ دوسرا ملزم تاحال گرفتار نہیں ہو سکا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم راﺅ انوار کو پیش کرا سکتے ہیں تو محسن حبیب کیا ہے ، محسن حبیب کا نام ای سی ایل میں ہے اسکو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ۔تو چیف جسٹس نے ایاز خان نیازی کو مخاطب کرتے ہوے کہا ایاز صاحب آج آپکی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں۔ دبئی میں آپ کیا کرتے ہیں وہاں آپ نے کیسینو کھول لیا تھا۔ ایاز نیازی نے کہا کہ میرا کوئی کیسینو نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپکو امین فہیم لائے تھے آپکی تعیناتی کیسے ہوئی تھی ۔ اگر جھوٹ بولا تو ضمانت خارج کردوں گا ، اس پر ایاز خان نے عدالت کو بتایا کہ مجھے آمین فہیم لائے تھے اور میں فروری 2009 میں پاکستان آیا تھا ۔وزارت کامرس کے کہنے پر اپنا سی وی بھیجا ،سابق سیکرٹری کامرس نے میرا انٹرویو کیا ۔میری تنخواہ اس وقت کتنی تھی اب یاد نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ آپ کو یہ بھی یاد نہیں ؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپکا انشورنس کمپنی کا کتنا تجربہ تھا ؟ اس پر ایاز نیازی نے بتایا کہ بینک میں انشورنس کا کام بھی ہوتا ہے۔ این آئی سی ایل کے سولہ ارب کے اثاثے تھے ، اپنے دور میں جائیدادیں خریدی ، ایک ارب سے زائد مالیت کی زمین لاہور میں خریدی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بورڈ میں کون تھا جس نے آپکو زمین خریدنے کی اجازت دی تھی ؟ سابق چیئرمین نے کہا کہ ایئر پورٹ روڈ پر بیس کنال کی زمین لی تھی ، چیف جسٹس نے کہا کہ بیس کنال کے پلاٹ کا کیا کرنا تھا تو انہوں نے بتایا کہ این آئی سی ایل کا دفتر بنانے کے لیے زمین لی ، کورنگی کراچی میں بیس ایکٹر کا پلاٹ نوے کروڑ میں خریدا ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپکی سی وی اور تعیناتی کا بھی جائزہ لیں گے کیوں نہ ایاز نیازی کو گرفتار کرا لیں عدالت نے عدالتی معاونت کے لیے بابر اعوان کو کو روسٹرم پر طلب کر لیا ، بابر اعوان نے کہا کہ نیب قوانین میں ضمانت کا تصور نہیں ہے ، اگر ہائی کورٹ سے ضمانت نہیں ہوئی تو گرفتاری ہوگی ، جبکہ نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ لاہور اور کراچی میں ایاز خان نیازی کیخلاف مقدمات زیر التواءہیں ، لاہور کے ریفرنس میں دس ملزمان ہین ایاز نیازی ضمانت پر نہیں ہیں ،عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم ایف آئی اے کے مقدمات میں عدالتوں سے ضمانت پر تھا تاہم مقدمات ایف آئی اے سے نیب منتقل ہونے پر ضمانت غیر مو¿ثر ہوگئی ہے ۔عدالت نے کرپشن کیس کے دوسرے کردار محسن حبیب وڑائچ کو بھی فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ نیب حکام نے عدالت کو بتایا کہ مخدوم امین فہیم کے توسط سے ایاز خان نیازی کو چیئرمین این آئی سی ایل لگایا گیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیکے کی زمینیں کروڑوں روپے میں خریدی گئیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ایاز خان نیازی سے متعلق نیب 2 ماہ میں کیسز نمٹائے اور قانون کے مطابق ان کے ساتھ معاملات کریں۔عدالتی احکامات کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے این آئی سی ایل کرپشن کیس میں ایاز خان نیازی کو گرفتار کرلیا۔ چیف جسٹس نے کہا جو ملک لوٹے گا وہ حساب دے گا۔ یہ پاکستان ہے یہاں لوٹ مار نہیں ہوگی۔ بلوچستان کے میڈیکل کالجز میں مستحق طلبا کے داخلے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دورا ن رجسڑار پی ایم ڈی نے عدالت کو بتا یا کہ سپریم کورٹ حکم کے مطابق داخلہ سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ تمام میڈیکل کالجز کو ایچ ای سی لسٹ کے مطابق خط لکھ دئیے اور معلومات ویب سائٹ پر بھی ڈال دی ہے تاہم طلبا سے برا ہ راست رابطہ نہ ہونے کے باعث مشکلات ہیں۔ ایڈوائزر ایچ ای سی نے بتا یا میڈیکل کالجز کا مو¿قف ہے کہ ان طلبا کیلئے اضافی سیٹیں بنانا ہوں گے سیشن چل رہے ہیں۔ کالجز کا کہنا ہے کہ وہ کوٹہ کی نشستیں پہلے دے چکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالتی حکم میں اضافی سیٹوں کا کہا گیا تھا لیکن پھر بھی داخلہ نہیں ہو سکا میں باہر جا رہا ہوں کوئی ابہام ہے تو بتا دیں۔ فنڈز اور سیٹوں سے متعلق نیا حکم جا ری کر دیتے ہیں۔ عدالت نے بلوچستان کے طلبا کے اخراجات ایچ ای سی کو ادا کرنے کا حکم دیتے ہو ے تمام طلباءکو میڈیکل کالجز میں سیٹ دینے کا حکم بھی دیا۔194 طلبامیرٹ پر نام آنے کے باوجود بھاری فیسز کے باعث داخلہ نہیں لے سکے تھے۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...