مملکت خداداد کے ’’پالیسی ساز ‘‘اداروں نے اب فیصلہ کر لیا ہے کہ ملک میں ’’مٹی پائو پالیسی ‘‘نہیں چلے گی ۔اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ اچھی بات ہے اگر فیصلے بروقت ہونگے اور اور عوام کو ریلیف ملے گا تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔اس وقت عوام کو جس مشکل کا سامنا ہے، وہ پانی کی قلت اور لوڈشیڈنگ کا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ اس سب سے پہلے پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے’’ کالا غ ڈیم‘‘ بنانے پر کام شروع کیا جائے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے جس انداز سے کوششیں کی جا رہی ہیں ان کے’’ ثمر آور‘‘ ہونے تک نوجوان بوڑھے ہوجائیں گے۔ دو تہائی اکثریت لینے والی حکومتوں نے بھی اس عوامی مسئلے کو دبائے رکھا کسی نے اس پر کوئی کام نہیں کیا ۔اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے اداروں کے مابین جو خلیج ہے اس کا سدباب ہونا چاہیے اور ایسے فیصلے کرنے چاہیں جو ملکی مفاد میں ہوں ۔میں نے تو اپنے ایک کالم میں یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اگر کسی کو کالا باغ ڈیم کے نام سے کوئی مسئلہ ہے تو ’’ بینظیر ڈیم ‘‘ نام رکھ لیں ۔ لیکن اسے تعمیر لازمی کریں کیونکہ یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے ۔
آج ملک بھر میں پانی کی قلت شدت اختیار کر چکی ہے ۔لوڈشیڈنگ کا ’’عفریت ‘‘منہ کھولے کھڑا ہے لیکن کوئی اس جانب توجہ کرنے کو تیار ہی نہیں ہے ۔ماضی میں ہماری سرزمین کو انتشار کی جگہ بنانے کے لیے بیرونی قوتوں نے قتل وغارت کا بازار گرم رکھا ۔ ڈرون پاکستان کی سرزمین سے اڑتے اور یہاںپر ہی’’ بجلیاں گراتے‘‘ رہے اورحکومت قوم سے مسلسل جھوٹ بولتی رہی ۔ سیاسی جماعتیں’’ قومی اثاثہ ‘‘ہیں لیکن ڈکٹیٹرز نے سیاسی جماعتوں کو مذموم مقاصد کیلئے توڑا۔لیکن کسی نے بھی ملکی مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کیا ۔ ’’ مٹی پائو‘‘اور’’مک مکا ‘‘کی پالیسی کے ذریعے حقائق قوم کو مایوس کیا گیا ۔
اب اگر مٹی پائواور مک مکائو کی پالیسی کا ’’خاتمہ ‘‘کر دیا ہے تو اس کی تحسین کرنی چاہیے اور قوم کو اب نئے زمانے کی نئی پالیسیوں کے ساتھ چلنے کا راستہ فراہم کرنا چاہیے ۔ بلوچستان میں امن سے ملک کا امن اور خوشحالی وابستہ ہے۔ بلوچستان کے مسائل حل کرنا اور زخموں پر مرہم رکھناچاہیے ۔ بلوچستان کے احساس محرومی کا خاتمہ کر کے عوام کے مسائل حل کرنے چاہیں ۔ آج بلوچستان کے حالات بھی انتہائی مخدوش ہیں اور وہاں پر احساس محرومی میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔لہذا اگر اداروں نے عوام کو بروقت ریلیف پہچانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور مٹی پائو پالیسی کا فی الفور خاتمہ کرنا چاہیے ۔
’’سینٹ کی قائمہ کمیٹیاں‘‘
چیئرمین سینیٹ نے تینتیس قائمہ کمیٹیوں کے قیام کی منظوری دے دی ۔یہاں پر اپوزیشن اور حکومتی پارٹی نے’’ مک مکا‘‘ کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں بس باہم رضا مند ی سے ہر کسی نے من پسند کی چیئرمین شپ کی خواہش ظاہر کی وہ ہی اسے دے دی گئی ۔ دفاع، ریلوے، قانون و انصاف، توانائی اور موسمیاتی تبدیلی کی کمیٹیاں قائم کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے ،اس میں اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا کہ کون اس عہدے کی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں بس جس کسی نے جس خواہش اور پسند کا اظہار کیا وہ ہی اسے دے دیا گیا ۔’’بندر بانٹ ‘‘ اور کسی کہتے ہیں یہی تو بندر بانٹ ہے ۔دیکھیں اس پر مٹی پائو لاگو ہوتی ہے یا نہیں ۔چند دنو ں میں واضح ہو جائے گا ۔
’’رمضان ٹرانسمیشن پر عدالت کابہتر فیصلہ‘‘
اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج نے رمضان کے دوران ٹی وی چینل پرہر قسم کے ’’نیلام گھر ‘‘ اور سرکس پرپابندی عائد کردی ہے۔رمضان ٹرانسمیشن اور مارننگ شوز کے ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران معزز جج نے ہر چینل کیلئے پانچ وقت کی اذان نشر کرنا لازم قرار دیا ہے۔ ماہ مقدس جو جنت کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے گذشتہ کئی برسوں سے ٹی وی چینلز کے درمیان ریٹنگ کے حصول کا ذریعہ بنتا جارہا ہے اور عوام کو رمضان المبارک جیسے نیکیوں کے’’ موسم بہار‘‘ میں جب ہر نیکی کا ’’صلہ ‘‘کئی گناہ بڑھ جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز نے عبادات سے ’’بھٹکا ‘‘کر گاڑی، موٹر سائیکل، موبائل اور برانڈز کے ملبوسات کے لالچ میں بھکاری بنادیاہے ۔
علماء کرام نے پہلے ہی ایسی رمضان ٹرانسمیشنز کو حرام قرار دیا جن میں مخلوط محفلیں ہوں اور ان میں اداکار اور گلوکار شامل ہوں بلکہ میزبانی بھی کررہے ہوں۔سینٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات،نشریات اور قومی ورثہ 2015 میں بھی تمام ٹی وی چینلز کو ہدایت نامہ جاری کیا۔جس میں غیر اخلاقی پروگراموں ،گانوںاورمقررہ حد سے زائد اشتہارات و غیر ملکی مواد کو روکنے کے لئے احکامات صادر کئے گئے۔پیمرا نے متعدد عوامی شکایات کے پیش نظر تمام ٹی وی چینلز کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نیلام گھر طرز کے پروگرام نشر کرنے اور مقدس مہینے کے تقدس کو پامال کرنے کا بھی سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے تمام پروگراموں کو مستقل میں نہ نشر کرنے کی بھی ہدایت کی تھی لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تھا ۔اب عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کہا ہے کہ ٹی وی پر ایسے علما کرام آکر گفتگو کریں گے جو پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں یہ بہت ہی مستحسن بات ہے ۔دیگر اسلامی ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے جید علما کرام کو بلا کر بات کی جاتی ہے وہ نماز روزے کے مسائل پر بات کرتے ہیں ۔
اگرشرعی اعتبار سے مناسب رمضان نشریات ہوتو کم از کم بیہودہ ڈراموں اور ناچ گانوں سے انسان دور رہتا ہے۔اصلاح کی گنجائش تو ہر جگہ موجود رہتی ہے۔نماز میں اگر رکوع ٹھیک نہیں تو رکوع کوٹھیک کرنے پر توجہ دینی چاہیے نماز کو ترک نہیں کیا جانا چاہے۔یہی اصول ہے کہ رمضان نشریات سے لغویات اوراچھل کودکو نکال دیں تو اس سے بڑے فوائدبشمول روحانیت، معلومات اور گناہوں سے دوری کا جذبہ جیسے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں۔اگرا س بار علماء کرم نے کوشش کی تو لازمی طور پر ہمارے ہاں بھی عوام کو اچھی معلومات مل سکتی ہیں ۔