ستم تو یہ ہے کہ، نوجوان تاریخ سے ناآشنا ہے اور بوڑھے یا بزرگ تاریخ سے سبق سیکھنے سے گریزاں ہیں۔ فراز کا وہ کہنا یاد آگیا کہ :
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو
سیاست کے حوالوں سے ، پہلے لگنے لگا تھا کہ ہم بین الاقوامی رنگوں میں رنگنے لگے ہیں، عوام پر شعور کے آفتاب کی کرنیں مہربان ہونے لگی ہیں، عوامی امنگ میں دوراندیشی کا ترنگ آ بسا ہے، سپنے سچ ہونے لگے ہیں اور تعبیریں انگڑائیاں لے رہی ہیں۔ لیکن ادائے باغی اور صدائے جنوبی پنجاب محاذ دیکھ سن کر یہ لگنے لگا ہے کہ، ہنوز دلی دور است! اس سے بھی بڑی بات یہ کہ، نہ جانے ساری عمر اقتدار میں بسر کرنے والے میاں محمد نواز شریف کو کیا سوجھی کہ، مسلم لیگ کے صدر سے قائد بن جانے کے بعد بے موقع ممبئی حملوں کا ذکر چھیڑ دیا۔ ن لیگ تو یہ لوگ خود اپنے آپ کو کہتے ہیں ورنہ ان کے پرستار اور عوام تو انہیں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے مقابلہ پر مسلم لیگ ہی سمجھتے ہیں ، وہ مسلم لیگ جو پاکستان کی خالق سیاسی جماعت ہے اور جس کا نظریہ پاکستان، نظریہ اسلام بھی کہلاتا ہے۔ تاریخ تو یہی کہتی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف کیا کہتے ہیں ، یہ میرے لئے حیران کن ہے۔ کیونکہ ایک اخبار کی وساطت سے بات ہفتہ کی رات کو زبان زد خواص و عوام ہوئی پس اس انٹرویو کے سیاق و سباق کو جب مسلم لیگی ترجمان اور میاں صاحب کی زبان سے ایک دفعہ پھر "منظم" پیرائے میں سنیں گے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا۔ ابھی اپنا دل نہ مانتا ہے اور نہ قبول کرتا ہے کہ، میاں نواز شریف اتنی بڑی بات کہہ سکتے ہیں۔ جھوٹ سچ کی ایک اپنی کہانی ہوتی ہے تاہم رہنما اور حکمران وہ بھی وزیراعظم یا صدر کا پورٹ فولیو رکھنے والا آخری دم تک حکمت اور دانائی کا دامن نہیں چھوڑتا۔ حکومتی سربراہان ہی نہیں آرمی، عدلیہ، ایف آئی اے، آئی بی جیسے حساس اداروں کے رہنما اپنا پروفیشنلزم تاحیات رگ و پے میں رکھتے ہیں۔ یہ تو بڑی بڑی باتیں ہیں،ایک عام ڈاکٹر اور عام استاد پروفیشنل رازوں کا پردہ چاک نہیں کرتا۔ خیر میاں محمد نواز شریف کے اس "اعتراف" میں کوئی سیاسی و سماجی، خارجی و داخلی ،حکومتی و انتظامی اور ریاستی منصوبہ بندی کے حوالے سے کوئی ضرورت نظر نہیں آتی۔ ابھی یہ سوال ہی ہے کہ، میاں صاحب نے ممبئی حملوں کا "راز" یا راگ کیوں الاپا۔ ایک دو دن بعد صورت حال واضح ہوگی ، ابھی جو عمران خان نے کراچی کے 10 نکاتی والے جلسے میں کہا ہے کہ، میاں نواز شریف نے یہ سب اربوں روپے بچانے اور بین الاقوامی دباؤ پاکستانی اداروں پر بڑھانے کے لئے کیا ہے۔ ہم جذبات میں آکر یا بغض معاویہ یہ سب فوری ماننے کو تیار نہیں۔ تیار ہوں بھی تو دل اس لئے نہیں مانتا کہ، میاں نواز شریف اس جنرل کے سیاسی شاگرد ہیں جو آمر سہی لیکن اس کی حب الوطنی پر کوئی داغ نمایاں نہیں ہے۔ وہ تو کرکٹ ڈپلومیسی سے خبردار کرنے اور بذریعہ "سکھا شاہی" خارجی و دفاعی فنون سے آشنا تھا۔ نہ، نہ! دل ہے کہ مانتا نہیں، ہمیں وہ یاد ہے سب ذرا ذرا وہ لوگ جو ذوالفقار علی بھٹو پر الزامات لگاتے تھے وہ مسلم لیگ میں بیٹھ کر اسے اب شہید گردانتے ہیں۔ اور وہ جو اسمبلی اور جلسوں میں بینظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک کہتے تھے ہم نے ان کے یہ اقوال زریں اپنے گنہگار کانوں سے سنے ہیں۔ پھر ان گنہگار کانوں نے ان مسلم لیگیوں اور مولویوں کی زبانوں سے محترمہ شہید کے لفظ بھی سنے۔ وہ جو کہتے تھے کہ بھٹو نے کہا، " ادھر تم ، ادھر ہم" آج وہی سوال اٹھاتے ہیں کہ، اس وقت نکیل اقتدار کس ہاتھ میں تھی اور آگے تھمانے پر قادر کون تھا؟ انہی تاریخی نزاکتوں اور باریکیوں کو نوجوانوں کو خود پرکھنا اور سمجھنا چاہئے، جب تک نوجوان ان حقائق کو کلاس رومز، یونیورسٹیوں، تربیت گاہوں اور سیاسی محفلوں میں نہیں سمجھے اور کھنگالے گا تب تک ووٹ کی عزت ممکن ہے نہ ووٹر کی اہمیت۔ اسے سمجھے بغیر کسی جمہوریت میں کوئی انتقام ہے نہ رنگ اور ترنگ۔ جلسوں اور جلوسوں سے آپ کو ریشمی لفاظی اور انگاروں کے بیان تو مل سکتے ہیں مگر سیاسی و تاریخی فہم و فراست نہیں۔ مانا کہ، یہ بڑے بڑے لیڈر اپنی شعلہ بیانیوں میں شعور بھی دیتے ہیں مگر وہ شعور جو اموشنل بلیک میلنگ میں لپٹا ہوتا ہے اور جسے وہ مس یوز کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بلاول بھٹو زرداری سے پوچھے کہ 12 مئی کے شہیدوں پر کراچی میں جلسہ کرنے والے اس سانحہ 21 مئی کے بعد مسلسل دو دفعہ آپ کی سندھ میں حکومت رہی ، آپ لوگوں نے کیا تفتیش کی اور کیا زخم بھرے؟ پھر 10 نکات کو کراچی میں لانچ کرنے والے عمران خان سے کوئی پوچھے، بھائی جان جو پیام کراچی کیلئے آپ لائے ہو ،کہ اقتدار ملنے پر یہ کچھ کریں گے۔ اجی ذرا بتادیجئے! کے پی کے پشاور میں یہ سب 10 نکاتی کیا؟ جہاں 5 سال سے عنان اقتدار آپ کے پاس ہے، جناب! اور یہ بھی بتا دیجئے ایک طرف آپ نوجوان قیادت اور نوجوانوں پر انحصار کی سیاست اور بات کرتے ہیں اور دوسری طرف مقابلے پر کھڑے نوجوان کو بے بی بلاول کہہ کر پکارتے ہیں یہ کھلا تضاد نہیں؟ کڑک میں شرح سرطان زیادہ ہے تو وہاں اٹامک انرجی کمیشن کا کینسر علاج کا پراجیکٹ بنوں کیوں منتقل کرنے دیا گیا، محض اس لئے کہ اکرم خان درانی تکڑا ایم این اے اور وفاقی حکومت کا منظور نظر ہے لیکن صوبہ کیوں خاموش رہا ؟ کڑک میں کروڈ آئل کی چوری کا تسلسل کیوں اور جنوبی کے پی کے کی حالت زار بدتر کیوں؟ بمبئی حملوں کے حوالے سے میاں نواز شریف کو میر جعفر اور میر صادق کہنے والے عمران خان نے کہا ان میرجعفروں اور میر صادقوں کا خوردبینی جائزہ لے لیا جو تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ اور کون سی جادو کی چھڑی ہے جس سے اقتدار میں آنے کے بعد جنوبی پنجاب محاذ کے ساتھ ہونے والے تحریری معاہدے کے مطابق 100 دن میں نیا صوبہ بننا ممکن ہے؟ یہ سب سیاست نہیں کیا؟ جب ہم پی ٹی آئی کے دوستوں کو کہتے ہیں کہ کے پی کے کو نیا پاکستان کیوں نہیں بنایا تو وہ لاجواب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’ پی پی پی اور ن لیگ کو آزماتے رہے ہو اب عمران خان کو آزما کر دیکھو۔‘‘ عدالتوں پر انگشت نمائی والے ماہر قوانین اور سیاستکاروں نے کبھی عام آدمی کی آنکھ سے دیکھا ہے کہ رہائش کے لئے دومرلے زمین نایاب کس مافیا نے کی؟ سٹیل مل اور پی آئی اے کا حال بدحال کس نے کیا؟ جب حکومتی قوت انصاف کے بجائے مافیا کو منتقل ہو جائے گی تو کیا کیا گل کھلیں گے؟ اب ایسے میں کسی کو اگر (دیانتداری سے) آئین کی دفعہ 184 ( 3 ) کا خیال آجائے تو کتنا برا ہے؟ آج اگر 222 بڑے مگر مچھوں کو عدالت نے قرضے معاف کرانے کے حوالے سے پوچھا ہے،تو اس "برائی" کی جگہ کسی اور نے آج تک کوئی اچھائی استعمال کیوں نہ کی؟ ہم نہیں کہتے عوام میاں نواز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو کے جانثار اور پرستار نہ بنیں۔ لیکن یہ ضرور کہتے ہیں آنکھوں میں امید رکھیں مگر اندھے نہ بنیں ، پرستاری ضرور کریں مگر پوجا نہیں! وہ یاد آیا کراچی والے سانحہ 12مئی پر سیاسی جلسوں سے ایک روز قبل جلسہ ملتان میں قائد ن لیگ کا بھی ہوا۔ جس میں کسی کا "باغی" کئیوں کا "ایک بہادر آدمی" طمطراق انداز سے شریک محفل تھا، جانے کتنے نوجوانوں کو یاد ہے کہ، جاوید ہاشمی کو مولانا مودودی نے نام، اسلامی جمعیت طلبہ نے پہچان، میاں نوازشریف نے آن، عمران خان نے شان اور جنرل اسلم بیگ و آئی ایس آئی نے لاکھوں روپے دئیے۔ لیکن اللہ ہی جانے یہ کس کے ہیں اور کیا ہیں؟؟ اپنی تو خواہش تھی کہ یہ نوابزادہ نصراللہ خان کا نعم البدل بنیں جن کی آج کی سیاست کو اشد ضرورت ہے۔