لاہور (عدنان فاروق، ندیم بسرا) متحدہ مجلس عمل کے جلسے میں لوگ پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، فاٹا اور دیگرعلاقوں سے شامل ہوئے۔ جلسہ کی سکیورٹی کے لیے دوہزار سے زائد پولیس اہلکاروں سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ شامل تھے۔ انتظامیہ کے مطابق جلسہ گاہ میں پچیس سے تیس ہزار شرکاء کے لئے کرسیاں لگائی گئیں مگر شرکاء کی تعداد کو دیکھ کر کرسیاں بڑھانا پڑیں۔ جلسہ گاہ میں شرکاء کرسیوں کے علاوہ کارکن قالین اور دریوں پر بھی بیٹھے رہے۔ سکیورٹی کی ذمہ داری جی یو آئی ایف کے لوگوں نے سنبھال رکھی تھی مگر سکیورٹی اہلکاروں کے رویئے شرکاء سے درست نہ تھے جن کی شکایات کئی کارکنوں نے کی۔ جلسہ گاہ کے چاروں اطراف کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ جلسہ گاہ میں تین داخلی راستے رکھے گئے تھے۔ مرکزی قائدین کے لیے ایک سو بیس فٹ لمبا اور پچاس فٹ چوڑا سٹیج بنایا گیا تھا۔ جلسہ گاہ میں چار بجے سے پہلے لوگ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ ایم ایم اے کے انتخابی منشور خاص کر بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور خواتین کی پانچ فیصد نمائندگی پر شرکاء خوش نظر آئے۔ جلسہ میں تمام مسالک کی ہم آہنگی مثالی نظر آئی۔ سٹیج پر جیسے ہی کسی جماعت کا قائد تقریر کرنے آتا اس کی حمایت میں نعرے لگنے شروع ہو جاتے۔ سٹیج پر دو سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی مگر سٹیج پر چار سو سے زائد آ گئے۔ جنرل سیکرٹری ایم ایم اے لیاقت بلوچ نے اعلامیہ پیش کیا۔ سٹیج پر کسی جماعت کا قائد تقریر کرنے آتا اس کی حمایت میں نعرے لگنے شروع ہو جاتے۔ تمام جماعتوں کے قائدین نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شرکاء کے نعروں کا جواب دیا۔ تمام قائدین نے ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اظہار یک جہتی کیا۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ہم نے اپنے لوگوں پر واضح کردیا ہے کسی مسلک کی دل آزاری نہ کی جائے۔ جس طرح ایم ایم اے میں تمام مسالک کی دینی جماعتیں شامل ہیں دنیا کے پنتالیس اسلامی ممالک میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جلسہ گاہ نعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونجتی رہی۔ متحدہ مجلس عمل کے جلسے میں کارکنوں میں ہم آہنگی جبکہ سٹیج پر رہنما منقسم نظر آئے، انتخابی مہم کے سلسلے میں جلسے کے موقع پر اکثریت نے اپنی اپنی جماعت اور بہت کم افراد نے متحدہ مجلس عمل کے جھنڈے تھامے ہوئے تھے، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رہنما شفیق پسروری کو خطاب کے لئے ڈائس پر بلایا تو مرکزی جمعیت اہلحدیث کے کارکن نے اپنے رہنما کے استقبال میں جلد بازی سے کام لیتے ہوئے سپیکر سنبھالنے کی کوشش کی تو جماعت اسلامی پنجاب کے صوبائی امیر میاں مقصود احمد کو دھکا لگا۔ علاوہ ازیں سٹیج پر متحدہ مجلس عمل میں شامل دینی جماعتوں کے قائدین کارکنوں کے ہمراہ سٹیج پر آتے رہے جس کے نتیجے میں سٹیج ہر دھکم پیل کا سلسلہ جاری رہا، قائدین کی اپیل پر ڈائس کے آس پاس میں کھڑے لوگوں کو بٹھایا گیا تاکہ دھکم پیل اور کسی نقصان سے بچا جا سکے، سٹیج سیکرٹری کے فرائض کسی ایک جماعت کے رہنما نے سرانجام نہیں دیئے بلکہ جس جماعت کے رہنما سٹیج پر آتے تو اسی جماعت کے رہنما ہی سپیکر سنبھال لیتے اور استقبالیہ نعرے لگاتے۔