کرونا وائرس :: الزامات اور نظریات کا کھیل

ویکسین سازی اربوں کھربوں کا کھیل ہے یہ ڈالر چھا پنے کی مشین ہے جس تجارتی پہلوؤں کی وسعتیں حد وامکان سے ماورا ہیں۔خاتون سائنسدان‘ ڈاکٹر جوڈی عین میکوویٹس کا کہنا ہے کہ ویکسین سازی یا جراثیم کش دوائی کی تیاری دراصل پیسہ کمانے کی بہت بڑی صنعت ہے جو طبی طورپر انسانی جسم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انسانی اور حیوانی ٹشوز کو بیماریاں پھیلانے کیلئے استعمال کیاجارہا ہے۔ اس انکشاف نے سائنسی اور تحقیقی دنیا میں زلزلہ برپا کردیا ہے۔ڈاکٹر جوڈی میکوویٹس کے مطابق بڑا گیم پلان یہ ہے کہ جب تک آدھی دنیا اس سے متاثر نہ ہوجائے تب تک ویکیسن سامنے نہ لائی جائے۔ سائنسدان جانتے ہیں کہ فلو کی ویکسین میں یہ خامی ہے کہ اسکے استعمال سے جسمانی مدافعت میں 36 فیصد کمی ہوجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں کورونا مرض ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ماسک پہننے کے حوالے سے بھی انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ پہننے سے آپ بیمار ہورہے ہیں اور جو جراثیم قدرتی طورپر آپ کی صحت کیلئے مفید ہیں، وہ آپ کے جسم میں داخل نہیں ہوتے جس سے آپکے بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے جسم میں جراثیم داخل کرنے کا عمل کئی برس پر محیط ہے۔ جراثیم ہمارے جسم میں موجود تھا، اب ماسک پہننے سے یہ جراثیم متحرک ہوجاتا ہے۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اگر ہائیڈروکلورکوئین جیسی نمونیا کے علاج کی دوائی استعمال کی گئی تو ایسا کرنے والوں کے لائسنس منسوخ کردئیے جائینگے۔ یہ دوائی سستی ہے جو بل گیٹس اور ڈاکٹر سٹیفن فاوچی جیسے لوگوں کو قبول نہیں جو اس سارے کھیل میں پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر سٹیفن فاوچی امریکی فزیشن اور ماہر تنفس ہیں۔ وہ دنیا اور امریکہ کے مانے ہوئے صف اول کے سائنسدان تصور ہوتے ہیں۔ الرجی اور وبائی امراض کے قومی ادارہ کے سربراہ ہیں۔ 1984 سے وہ اس پر کام کررہے ہیں۔ رونالڈ ریگن کے دور سے لیکر ہر امریکی صدر کے مشیر رہے ہیں۔ امریکہ میں انکی رائے کو بے حد معتبر جانا جاتا ہے۔ وبائی امراض کے موضوع پر وہ دنیا میں قابل ترین ماہر تصور ہوتے ہیں۔ ایچ آئی وی اور ایڈز کی تحقیق میں بھی ان کا بڑا کردار مانا جاتا ہے۔
بروکلن نیویارک سٹی میں پیدا ہونے والے فاوچی کے والد کولمبیا یونیورسٹی کے تربیت یافتہ دوا ساز یا فارماسسٹ تھے۔ انکی اپنی فارمیسی یا دوائیوں کی دکان تھی جو ان کے گھر کے نیچے ہی واقع تھی۔ کہاجاسکتا ہے کہ ڈاکٹر فاوچی پیدائشی ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر فاوچی نے 1968ء میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ یا امریکی قومی ادارہ صحت سے کلینکل ایسوسی ایٹ کے طورپر وابستگی اختیار کی۔ انسانی قوت مدافعت کے نظام سے متعلق انہوں نے اہم تحقیقات کی ہے۔ مہلک امراض کے علاج دریافت کئے۔
ڈاکٹر جودی میکوویٹس نے ڈاکٹر فاوچی اور بل گیٹس پر سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ انکے مطابق ڈاکٹر فاوچی ویکسین اور ادویات کی تیاری میں بھاری وسائل لگارہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر فاوچی پر تحقیقات میں رشوت ستانی کا بھی الزام عائد کیاتھا۔ڈاکٹر فاوچی پر 2018 سے مسلسل حملے کرنیوالی ڈاکٹر میکوویٹس کو شہرت اس سال ملی ہے۔ ڈاکٹر جوڈی کا الزام ہے کہ ڈاکٹر فاوچی صدر ٹرمپ کیخلاف سازش کررہا ہے اور انہیں کورونا کے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دے کر انہیں ناکام اور نااہل ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر میکوویٹس کے مطابق 1980ء میں سرطان پر گریجویٹ سٹوڈنٹ کے طورپر ان کی تحقیق ڈاکٹر فاوچی لے اڑے۔ ایچ آئی وی کے پیٹنٹس کے ذریعے بھی ڈاکٹر فاوچی پر پیسے بنانے کا الزام ہے۔ کورونا وباء نے دنیا کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ علمی میدان میں بھی یہ بحث کسی اور انداز سے جاری ہے۔ سازشی نظریات کا الائو الگ جل رہا ہے۔ مذہب، سیاست، صحافت، معیشت اور عمومی معاشرت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر اس وبا کا اثر مرتب نہ ہوا ہو۔ حیران کن امر یہ ہے کہ سازشی نظریات سے لے کر ٹھوس علمی دلائل تک اس وقت کورونا ہی ہر مسئلہ پر حاوی ہے۔ دیگر امراض اور مسائل انسانی زندگی سے گویا ختم ہوگئے ہیں۔ چِِپ لگانے اور انسان کو غلام بنانے سے لے کر اس کے خیالات کو قابو کرنے تک ہر دلیل اور ہر استدلال ہی ٹھیک محسوس ہوتا ہے۔ ایک کنفیوژن ہے جس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے لیکن کسی کو علم نہیں کہ اصل میں کیا ہونے والا ہے؟ کب تک کوئی دوائی میسرآئے گی؟ کب اس وباء سے نجات ہوگی؟
عوام کی رائے کی تقسیم کی ایک بہت بڑی وجہ حکمران اشرافیہ ہے۔ حکمران عوام کو گھر سے باہر نہ نکلنے، احتیاطی تدابیر کی نصیحت کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ اس پر دنیا میں شدید تنقید ہورہی۔ امریکی میڈیا پر بحث جاری ہے کہ شکاگو کی خاتون مئیر بال ترشوانے حجام کی دکان پر گئیں لیکن ٹیکساس میں ایک سیلون چلانے والی خاتون کو سات ہزار ڈالر جرمانہ اور سات دن کی قید کا سامنا کرنا پڑا۔ سیلون چلانے والی خاتون سے جب جج نے ریاستی ہدایات کی خلاف ورزی کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہاکہ اس کے بچے بھوکے تھے، ان کے لئے رزق کمانا خودغرضی نہیں، میری اولین ترجیح ہے۔ عدالت سے تکرار پر خاتون کو توہین عدالت کی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
امریکی میڈیا نے اس پر اعتراض اٹھایا کہ شکاگو کی مئیر ایک کام کرے تو وہ ٹھیک اور اگر ایک خاتون اپنے بچوں کیلئے وہی کام کرے تو غلط ؟ اگر عدالتیں کھلی ہیں، جج اپنے فرائض ادا کرنے کو اہم سمجھتے ہیں تو ایک سیلون چلانے والی خاتون پر ریاست کی عمل داری کی خلاف ورزی پر اتنی سخت سزا کیوں؟ نیویارک کے مئیر کی اپنی اہلیہ کے ہمراہ پارک میں واک پر بھی میڈیا اور عوام میں خوب لے دے ہوئی۔ سوال اٹھا کہ جب سب گھر پر رہنے کے پابند ہیں تو پھر مئیر کو آزادی کیوں؟کینیڈا کے وزیراعظم کے عوام کو گھر پر رہنے اور دیگر نصیحتیں کرنے پر میڈیا نے سخت تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ جسٹن ٹروڈو عوام کو گھر پر رہنے کا کہہ کر خود اپنے گائوں میں رشتہ داروں سے ملنے چلے گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ کورونا سے لڑنے کے بجائے انسان آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ حالات دیکھ کر ذہن میں سوال آتا ہے کہ جب پوری بنی نوع انسان کی بقاء کا مسئلہ درپیش ہے تو پھر اتنی تلخ مزاجی اور اختلافات کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ کیا یہ پیدا ہورہے ہیں یا واقعتا پیدا کئے جارہے ہیں؟ یہ بھی ایک سازشی نظریہ ہے اور اس پر بھی تحقیق درکار ہے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن