اس وقت رشید صدیقی گروپ سے دیال سنگھ مینشن والے لاہور پریس کلب کا قبضہ چھڑانا ناممکنات میں شامل تھا، چنانچہ احیائے پریس کلب کی تحریک میں سرگرم کامرس رپورٹروں نے سید محسن رضا بخاری سے جو اس وقت لاہور سٹاک ایکسچینج کے صدر تھے اور بعدازاں وہ لاہور چیمبرز آف کامرس کے صدر بھی بنے، پریس کلب کیلئے جگہ فراہم کرنے کی درخواست کی جس پر وہ بخوشی آمادہ ہوگئے اور 87مال روڈ پر اپنے آفس کے سامنے خالی پڑی اپنی ایک عمارت ہمارے حوالے کر دی۔ کلب کے احیاء کی مہم میں دستخط کرنے والے صحافی ہی اس کلب کے ممبر بنے جن پر مبنی ووٹرز لسٹ کی بنیاد پر جون 1983ء میں پریس کلب کے انتخابات ہوئے، جس میں امتیاز راشد (جنگ) صدر اور قدرت اللہ چودھری (نوائے وقت) سیکرٹری منتخب ہوئے جبکہ گورننگ باڈی کی 4نشستوں پر انجم رشید، محمود زمان، صادق جعفری اور اظہر جعفری کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس طرح بے سرو سامانی میں مارشل لاء کی لٹکتی ہوئی تلوار کے نیچے صحافی برادری نے گھٹن کے دور سے نکل کر لاہور پریس کلب کی شکل میں اپنا ایک ٹھکانہ بنا لیا جبکہ رشیدصدیقی گروپ کا پریس کلب دیال سنگھ مینشن میں ہی موجود تھا جہاں سے ہمارے خلاف مزاحمت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کلب کی پہلی تنظیم 6 ماہ کیلئے منتخب ہوئی تھی۔ چنانچہ 30دسمبر 1983ء کو نئی گورننگ باڈی کے انتخابات کرائے گئے۔ اس میں اتفاق رائے سے عزیز مظہر صاحب کو بلامقابلہ صدر منتخب کرلیا گیا جو مارشل لاء کے جبر میں این پی ٹی کے اخبار ’’مشرق‘‘ سے نکالے جاچکے تھے، چنانچہ انتخابات میں ووٹنگ صرف سیکرٹری اور گورننگ باڈی کی 4 نشستوںپر ہوئی۔ میں خاور نعیم ہاشمی کے مقابلے میں سیکرٹری کا امیدوار تھا اور کوڑے کھانے والے اس دور کے بھی معروف صحافی خاور نعیم ہاشمی کا مقابلہ کرنا میرے لئے بہت کٹھن مرحلہ تھا کیونکہ ’’جنگ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر اطہر مسعود خم ٹھونک کرخاور نعیم ہاشمی کی حمایت کیلئے میدان میں آچکے تھے اور پورے ’’جنگ‘‘ گروپ کو متحرک کرچکے تھے۔ مجھے ’’نوائے وقت‘‘ کے ساتھ ’’ڈان‘‘ گروپ کی بھی حمایت حاصل تھی اور نثار عثمانی صاحب، صفدر میر اور’’امروز‘‘ کے شفقت تنویر مرزا میری سرپرستی کر رہے تھے، چنانچہ الیکشن میں برج الٹ گیا اور سیکرٹری کی نشست پر کامیابی میرا اعزاز ٹھہری۔ وہ اچھی قدروں والا دور تھا، اس لئے الیکشن کے بعد خاور نعیم ہاشمی کے ساتھ مثالی دوستی کا رشتہ استوار رہا جو سیاسی، نظریاتی بُعد کے باوجود آج کے دن تک قائم ہے۔ گورننگ باڈی میں شاہین قریشی، عبدالرب صدیقی، فاروق علی اعوان اور ’’نوائے وقت‘‘ کے اس وقت کے ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر ممتاز گیلانی صاحب منتخب ہوئے۔ کلب کو چلانے کیلئے کن کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ’’تجزیہ‘‘ پروگرام پر جس میں مارشل لاء مخالف اپوزیشن اتحاد ایم آر ڈی کے لیڈران کو مدعو کیا جاتا تھا، مارشل لاء حکومت کی جانب سے بالخصوص مجھے سنگین نتائج کی کیسی کیسی دھمکیاں ملتی رہیں۔ یہ ایک الگ داستان ہے جو کسی دوسرے وقت پر ادھار رکھتا ہوں۔ سید محسن رضا بخاری نے بھی اس ناطے سے جرنیلی آمریت کا بہت دبائو برداشت کیا مگر وہ بھی ہمارے دم قدم رہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ سے میری وابستگی کے ناطے محترم مجید نظامی کو بھی خاصے دبائو کا سامنا کرنا پڑا، جس کاانہوں نے مجھ سے تذکرہ بھی کیا مگر انہوں نے مجھے کلب کی سیاست سے دستبردار ہونے کا کبھی نہ کہا۔
1985ء کے کلب کے انتخابات میں میں نے اپنے بجائے جواد نظیر کو سیکرٹری کا امیدوار بنایا۔ عزیز مظہر صاحب اس وقت بھی بلامقابلہ صدر منتخب کرلئے گئے تھے۔ ہماری بھرپور مہم سے جواد نظیر سیکرٹری منتخب ہوگئے جن کے مدمقابل عبدالرب صدیقی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جواد نظیر نے منتخب ہوتے ہی اپنی انفرادیت قائم کرنے کیلئے ایک بچگانہ حرکت کی اور پریس کلب کو حمید نظامی روڈ پر ’’لاہور پیلس‘‘ کے سامنے والی گلی میں اپنے ایک دوست کے گھر منتقل کر دیا جن کے ساتھ ان کی جلد ہی اَن بن ہوگئی تو پریس کلب کے پھر سے بے ٹھکانہ ہونے کے آثار پیدا ہوگئے۔ اس موقع پر چودھر ی خادم حسین اور چند دوسرے سینئر ساتھیوں کا فہم و تدبر کام آیا اور ان کی کوششوں سے کلب کو ایبٹ روڈ پر پرنس سنیما سے ملحقہ پلازہ میں فرسٹ فلور پر ٹھکانہ مل گیا۔ 1986ء کی باڈی کیلئے پریس کلب کا انتخاب اسی جگہ پر عمل میں آیا۔ چودھری خادم حسین اور ’’ڈان‘‘ گروپ کے ساتھی مجھے دوبارہ سیکرٹری کیلئے انتخاب لڑنے پر مجبور کرچکے تھے جس کیلئے انہوں نے محترم مجید نظامی سے بھی بطور خاص اجازت لے لی تھی، اس لئے میں دوبارہ انتخابی میدان میں آگیا اور جواد نظیر نے میرے اچھے دوست شاہین قریشی کو میرے مدمقابل لاکھڑا کیا۔ اس بار حسین نقی صاحب کو بلامقابلہ صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ سیکرٹری کی نشست پر گھمسان کا رن پڑا اور میں پہلے سے بھی زیادہ مارجن کے ساتھ سرخرو ہوا۔ گورننگ باڈی میں رئوف طاہر، جمیل چشتی، فیاض چودھری اور امتیاز اعوان منتخب ہوئے۔ اس وقت تک کلب کو چلانے کیلئے انتہا درجے کی مالی دشواریاں حائل ہوچکی تھیں اور ہمارے پاس کچن چلانے اور ملازمین کو تنخواہ تک ادا کرنے کے پیسے بھی موجود نہیں تھے۔ ہم نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور جیسے تیسے آدھا ٹینور پورا کرلیا مگر پھر حسین نقی صاحب نے عملاً ہاتھ کھڑے کر دیئے اور گورننگ باڈی کے اجلاس میں کلب کو وائنڈ اَپ کرنے کی تجویز دے دی، میں نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور اجلاس کے بعد رئوف طاہر صاحب کو ساتھ لیکر اپنے دوست شیخ روحیل اصغر کے پاس آ گیا جنہوں نے ملازمین کی تنخواہ اور کچن چلانے کیلئے کلب کو معقول گرانٹ دے دی، اس طرح ہم سے پھر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے۔ اسی دوران فیاض چودھری صاحب نے گورننگ باڈی کے ایک اجلاس میں بتایا کہ رشید صدیقی گروپ کا پریس کلب ہمارے ساتھ مفاہمت کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت دیال سنگھ مینشن والے لاہور پریس کلب کے صدر ظفیر ندوی اور سیکرٹری تسلیم احمد تصور تھے۔ حسین تقی صاحب نے ان کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی۔ اس میں فیاض چودھری میرے رفیق کار تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ جونیجو حکومت کے قائم ہونے کے بعد رشید صدیقی گروپ کو صحافی برادری میں اپنے غیر مؤثر ہونے کا ادراک ہو گیا تھا، اس لئے وہ کمیونٹی میں مزید لعن طعن سے بچنے کیلئے ہمارے ساتھ مفاہمت کرنا چاہتے تھے۔ ہمارے لئے ویسے ہی مالی حالات پریشان کن ہو چکے تھے، اس لئے عملاً دوطرفہ برف پگھلی اور ہمارے دوطرفہ مذاکرات اپنی اپنی باڈی ختم کر کے مشترکہ پریس کلب تشکیل دینے پر منتج ہوئے، جس کی دونوں تنظیموں نے اپنی اپنی گورننگ باڈی سے منظوری لی اور پھر دونوں تنظیموں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا، چنانچہ ہم نے اپنا سارا سامان اٹھا کر دیال سنگھ مینشن منتقل کر دیا۔ کلب کی مشترکہ ووٹرز لسٹوں کی تیاری اور نئے انتخابات کیلئے بھی مشترکہ طور پر 2 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو میرے اور ظفیر ندوی پر مشتمل تھی۔ اس عبوری عرصہ میں پریس کلب کا کوئی وجود نہیں رہا تھا اور 2 رکنی کمیٹی ہی سارے انتظامی معاملات چلا رہی تھی۔ ہم نے دونوں کلبوں کی ووٹرز لسٹیں اپنے سامنے رکھیں اور پھر اخباری دفاتر میں باقاعدہ سروے کر کے مشترکہ ووٹرز لسٹ تیار کی جو تقریباً 450ممبران پر مشتمل تھی۔ یہ فہرست میرے اور ظفیر ندوی کے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ جاری ہو گئی، جس کی بنیاد پر ہم نے مشترکہ پریس کلب کے انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا۔ اسی دوران رشید صدیقی کی نیت میں پھر فتور آ گیا اور انہوں نے پہلے ہی کی طرح لاہور پریس کلب کی پھر ایک ڈمی تنظیم کھڑی کر دی جس میں طارق اسماعیل (پاجی) کو صدر اور سید محمود جعفری کو انہوں نے سیکرٹری قرار دے دیا۔ اس ڈمی تنظیم نے پہلا کام ہمارے جاری کردہ انتخابات کے شیڈول کو سول کورٹ میں چیلنج کرنے کا کیا اور وہاں سے کلب کے انتخابات کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ یہ کیس تقریباً 2 سال تک چلتا رہا جس کی سماعتوں کے دوران کمرۂ عدالت میں متعدد بار میرے اور سید محمود جعفری کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی۔ (جاری)
ماروی سرمد، پریس کلب کا مقبوضہ پلاٹ اور میری یادیں
May 14, 2020