عالمی منڈی میں تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دی گئی ہے،لیکن کمی کی شرح ایک مرتبہ پھر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی شرح کے مقابلے میںکم ہے۔عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوںمیں کمی کے واضح اثرات کی منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ اضافی ٹیکس اور لیویزمیں جس کے باعث تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود تیل سستا نہیں ہوتا ۔ماہرین کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمت کا 40 فیصد تیل کی خریداری اور 40 فیصد ہی حکومت کا منافع یعنی پٹرولیم لیویز وٹیکس میں جبکہ باقی 20فیصد پٹرولیم سے وابسطہ افراد کا حصہ ہے اس طرح حکومت کو بیٹھے بٹھائے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کی مساوی رقم ملتی ہے۔گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول81.58، ہائی سپیڈ ڈیزل 80.10، لائٹ 47.51،مٹی کا تیل 47.44روپے فی لیٹر ہو گیا ہے،جبکہ اس وقت پٹرول پر 45روپے 85پیسے فی لیٹر ٹیکس ،لیویز ڈیوٹیز عائد ہے۔مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام کے لئے یہ خبر یقینا خوش آئند ہے لیکن دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کو توقع کے برعکس بھی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ عالمی منڈی میں جس تناسب سے تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں،اتنا ہی ریلیف عوام کو بھی ملنا چاہیے تھا۔ لیکن پاکستان کے عوام کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف فراہم نہیں کیاجا سکا،حقیقت میں دیکھا جائے تو پٹرول کی قیمت میں کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر گھٹ رہی ہے جبکہ ڈالراونچی اڑان بھر رہا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور غریب کے لئے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے معاشی نقصان اور لاک ڈاؤن سے حکومت کو 119ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔روزگار میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے 7کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ 10لاکھ چھوٹے ادارے بند ہو چکے ہیں۔حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچناچاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کر وائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو۔ اس
وقت پاکستانی معیشت پہلے ہی کافی مشکلات سے دوچار ہے،زیادہ شرح سود کا بڑھنا اور دیگر ایسے دوسرے عوامل ہیں جنہوں نے مل کر عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا ڈالا ہے۔اس معمولی کمی کوعوام کیلئے تھوڑا سا ریلیف بھی کہا جا سکتا ہے۔حکومت کو گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پٹرولیم مصنوعات پر عائد سرکاری ٹیکسز کو کم سے کم کرے تاکہ حقیقی معنوں میں تبدیلی آسکے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی سے عوام کو خاصی حد تک ریلیف مل سکتاہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ کمی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے باعث ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو یہ ریلیف کتنے عرصے تک ملتا ہے۔ عالمی منڈی میں اگر تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں تو یہ ریلیف کم ہونا شروع ہوجائے گا۔ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے توانائی کی قیمتوں میں توازن اور تسلسل انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کیلئے توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل جلد نہیں ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں تیل کی قیمتیں سالانہ میزانیے میں طے کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک برس تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکساں رہتی ہیں۔ اس طریقے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یوں ملکی معیشت یکساں رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تو مارکیٹ میکنزم کامیاب ہے لیکن پاکستان جیسے معاشی طور پر کمزور ملک کیلئے یہ طریقہ کار زیادہ کامیاب نہیں ہے۔ایک خبر کے مطابق مہنگائی بڑھ جانے کوان کی نااہلی تصور کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں جمہوریت اور سیاسی حکومت ہے۔ سیاسی جماعتوں نے عوام سے ووٹ لینا ہوتے ہیں اور سیاست دان حضرات خود کہتے ہیں کہ ووٹ کارکردگی کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ لیکن یہ کیسا دعویٰ ہے کہ اس کی تکمیل کیلئے بیوروکریسی اور سرکاری مشینری پر بھروسہ کیا جا رہا ہے۔ یہ وزراء حضرات کس مرض کی دوا ہیں اگر یہ براہ راست خود کنٹرول یا نگرانی نہیںکرسکتے۔ بہتر عمل یہ تھا کہ جب حکومت پٹرولیم مصنوعات سستی کرنے جا رہی تھی ، تو ایک مربوط پالیسی کے تحت ایسا کیا جاتا، خود حکومت ماہرین کے تعاون سے باقاعدہ ایک پالیسی مرتب کرتی، جو مارکیٹ کے مکمل جائزے اور تجزئیے کی بناء پر ہوتی اور ایوان ہائے صنعت و تجارت سے بھی تعاون مانگا جاتا۔ اس سلسلے میں اشیاء خوردنی اور ضرورت بنانے والی صنعت کے کرتا دھرتاحضرات سے میٹنگز کی جاتیں اور ان سے نرخ کم کروائے جاتے، اسی طرح تھوک مارکیٹ والوں سے بات کی جاتی تو نتائج بہتر ہوتے کہ اوپر سے جب کمی ہوگی