کورونا وائرس کو دنیا بھر میں اس قدر شہرت حاصل ہوچکی ہے کہ ترک ڈراموں کا نمبر دوسرا اور بھارتی فلموں کانمبر شہرت کی فہرست میں تیسرا ہوچکا ہے۔محبوبہ کو خط لکھنے بیٹھو تو بھی کورونا کا ہی ذکر نکل آتا ہے لیکن افسوس کے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں تاحال اس کا علاج تلاش نہ کرسکیں۔کورونا وائرس کا پھیلاؤ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔کورونا وائرس کیسے پھیلا کہاں سے آیا؟عالمی طاقتوں کے ایک دوسرے پر الزامات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔اہم بات یہ بھی ہے کہ کورونا وائرس پر تحقیق کرنے والا چینی پروفیسر امریکا میں قتل کردیا گیا، امریکا کی پٹس برگ یونیورسٹی میں کرونا وائرس پر تحقیق کرنے والے ایک چینی پروفیسر کو مبینہ طور پر قتل کر دیا گیا۔یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ مقتول پروفیسر کرونا وائرس کے حوالے سے اپنی تحقیق میں انتہائی اہم نتائج کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔طالبان سے شکست کھانے والے ٹرمپ صاحب کسی دن خواب میں آئے تو ضرور پوچھوں گا کہ دوسروں کو دہشت گرد کہنے والے اور غیر محفوظ قرار دینے والے ملک میں یہ واقعہ کیسے ہوگیا؟کیا امریکا میں بھی کسی ملک کے نام سے چلنے والا کوئی گروہ ہے؟کوئی کالعدم تنظیم ہے؟یا پھر کوئی عسکری ونگ؟خیر ہمیں دنیا سے اور عالمی سازشوں سے کیا لینا دینا ہمارے تو اپنے ہی مسائل حل نہیں ہوتے۔جب سے یہ وبا مملکت خداد اد میں آئی ہے وفاقی حکومت و سندھ حکومت کے جھگڑے ختم ہی نہیں ہورہے۔سندھ حکومت و وفاقی حکومت نے ایسا ماحول بنا دیا ہے جیسے کسی گھر میں دو سوتنیں ایک ساتھ رہتی ہیں جنہیں ایک دوسرے کی ہر بات سے اختلاف ہو اور دونوں ہی ''میں نا مانوں ''کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیئرمین بلاول بھٹو نے شکوہ کیا کہ وفاقی حکومت نے سندھ سے جو وعدے کیئے، پورے نہیں ہوئے جبکہ خیبرپختونخوا کو بھی سپورٹ نہیں ملی۔بلاول بھٹو کا قومی اسمبلی سے خطاب میں کہنا تھا کہ ہم مثبت تنقید کرتے ہیں لیکن سندھ میں تحریک انصاف کے نمائندے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے عوام کو کنفیوژ کر رہے ہیں۔ وفاق کی طرف سے ہماری ہر کوشش کو انڈر مائن کیا جائے گا تو ہماری کوشش ناکام ہونگی جبکہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کورونا پوری دنیا کیلئے چیلنج، اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہو چکا، وائرس سے نمٹنے کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کس صوبے کی حکومت کامیاب ہوئی؟کیا کسی بھی صوبے میں قرنطینہ مرکز کی تعریف سنی گئی؟کیا کہیں بھی قرنطینہ میں رہنے والے مریض مکمل مطمئن ہیں؟اگر ہیں تو تحقیق کرالیجئے کہ کیوں قرنطینہ مراکز میں موبائل کے استعمال پرپابندی عائد ہے؟کونسا صوبہ ایسا ہے جہاں پر کاروباری افراد کو اس بات کا یقین ہو کہ حکومت وبا اور لاک ڈاؤن کے بعد کاروبار کی بحالی میں ہماری مدد کرے گی؟کیا کہیں ایسا ہوا کہ کسی عوامی نمائندے نے جس کو کورونا وائرس کا مرض لاحق ہوا ہو اس نے اعلان کیا ہو میں اپنے گھر میں آئسولیٹ نہیں ہوں گا میں اپنے عوام کے ساتھ قرنطینہ مرکز میں آئسولیٹ ہونا چاہوں گا؟اگر نہیں تو کیوں؟کیوں کچھ لوگ سماجی تنظیموں کو دعا دیتے نظر آئے کہ ہمیں راشن دیا اور کچھ گالیاں دیتے نظر آئے کہ اپنے اپنوں کو دے دیا؟کتنے ایسے ہیں جو کہیں ہمیں جو دیا حکومت نے دیا بھاڑ میں جائیں فلاحی تنظیمیں ہمیں کسی کی ضرورت نہیں ہماری حکومت ہمارے لئے بہترین اقدامات کر رہی ہے۔جن کے پاس کھانے کو نہ رہا ان سے چندہ مانگنا کیسا عمل ہے؟12 ہزار 3 ماہ کیلئے بہت ہیں؟جہاں جہاں 12 ہزار میں سے کٹوتی ہوئی وہاں کتنے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوئی؟حسب معمول سیاسی جماعتوں اور حکومتوں میں ہر معاملے کی طرح اس معاملے پر بھی اختلاف دیکھا گیا۔ایک تنظیم کے نمائندے پریس کانفرنس ختم کرکے اٹھتے تو دوسرے ٹیلی وژن اسکرین پر ظاہر ہوجاتے۔عوام کا بھولا پن بھی دیکھنے کے لائق ہے۔70 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا اب بھی ہمارے پاس زندہ باد مردہ باد کے نعروں کے سوا کچھ نہیں۔70 سال سے زیاد ہ کا عرصہ گزر گیا اب بھی ہمارے پاس وفادار اور غدار کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے علاوہ کوئی پالیسی موجود نہیں۔الجھی ہوئی قوم جب کچھ سوچنے لگتی ہے تو اسے مزید الجھا دیا جاتا ہے۔تکرار در تکرار کے بعد بھی جب اس بار کچھ نہ ملا تو شوشا چھوڑ دیا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنا لازم ہے۔اس بیان کی مخالفت میں وہ سارے ذہین سامنے آگئے جن کو یہ بھی علم نہ ہوگا کہ اٹھارویں ترمیم ہے کیا؟پاکستانیوں کو اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھنا ہوگی۔موجودہ صورتحال جنگی صورتحال ہے۔جنگوں میں ہم ایک تھے تو 1948 میں آدھا کشمیر انڈیا سے چھین کر لے آئے۔جنگوں میں ہم ایک تھے تو 1965 میں انڈیا کو ایسا جواب دیا کہ وہاں کی کتابوں میں پاکستانیوں کی شجاعت کا ذکر ہوالیکن ہم بکھر جائیں تو کیا حال ہوگا سمجھ نہ آئے تو 1971 کے واقعات پڑ لیں۔یہ وقت تقسیم در تقسیم کا نہیں عوام کو اور عوامی نمائندوں کو اب اس فارمولے کوناکام بنانا ہوگا۔قوم کا ایک ہونا لازم ہے صوبوں کا ایک ہونا اور حکومتوں کا ایک پیج پر ہونا لازم ہے۔آخر کب تک ہم انہیں باتوں پر تا تھیا کرتے رہیں گے کہ پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی کی ایک اور مثال قائم چین نے امدادی سامان بھجوا دیا؟کب تک ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہوئے رقص کریں گے بیرون ملک مقیم فخر پاکستان نے ملک کا نام روشن کردیا؟بھائی اتنا ہی قابل فخر تھا تو ملک چھوڑ کر کیوں گیا؟یہاں کوئی کارنامہ کیوں نہیں سر انجام دیا؟پاکستانیوں کو اب سوچنا ہوگا کون ہے جو ہمیں بانٹتا ہے۔ہمیں اب چپڑاسی کی نوکری اور راشن کا تھیلا لے کر ترجمانی کرنا بند کرنا ہوگی۔ہمیں اب نہیں تو کبھی نہیں کے نظریے پر چلنا ہوگا۔اب صرف ملکی ترقی کی بات کو تسلیم کرنا ہوگی باقی ہر بات کو ریجکٹ کرنا ہوگا۔ہمیں اسی کو زندہ باد کہنا ہوگا جو ملک کو اور قوم کو ایک کرکے ترقی کی بات کرے ہمیں استعمال کرنے والوں کو اب مردہ باد کہنا ہوگا۔ایسا نہ ہوا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی صاف پانی کو ترسیں گی۔ہماری آنے والی نسلیں بھی راشن کے تھیلے کے پیچھے بھاگیں گی۔ہماری آنے والی نسلیں بھی اسپتالوں میں مریں گی اور اس سب کے ذمہ دار وہ ہوں گے جنہوں نے اپنی عقل پر برانڈڈ پردے ڈال رکھے ہیں۔
کورونا وائرس دوسوتنیں اور جنگی صورتحال
May 14, 2020