اسلام آباد (نا مہ نگار) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شریف خاندان کے ملازمین کے ناموں پر کمپنیاں اور اکائونٹس بنا گئے جس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے ثبوت ملے ہیں، یہ میں نہ مانوں کی رٹ جتنی چاہیں لگا لیں، ثبوت سامنے آچکے ہیں، جو شواہد شہباز شریف کے خلاف ملے ہیں ان کا بچنا ممکن نہیں۔ بدھ کواسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھیلے کی کرپشن کے عنوان سے پہلے بھی دو پریس کانفرنسز کرچکا ہوں، شہبازشریف کی درجنوں فرنٹ کمپنیاں سامنے آئی ہیں، شہبازشریف اپنے بھائی کی بیماری کا بہانہ کر کے لندن گئے تھے، جیسے ہی گرم ہوا چلتی ہے یہ لندن بھاگ جاتے ہیں اور گرم ہوا آنے والی ہے، یہ میں نہ مانوں کی چاہے جتنی رٹ لگا لیں ان کا بچنا آسان نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ایک کمپنی کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں جہاں سے ڈائریکٹ کک بیکس اور کمیشن کے ناقابل، تردید ثبوت ملے ہیں جس میں بینکنگ ٹرانزکشنز اور دستاویزی ثبوت شامل ہیں۔ اب چاہے یہ میں نہ مانوں کی جتنی بھی رٹ لگا لیں اس سے بچنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ شہزاد اکبر نے کہ ابھی تک نے پنجاب میں شہباز شریف کے 10سال دورِ اقتدار کے دوران کچھ ایس ٹی آرز پر تحقیقات کیں جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کے خاندان کے اثاثوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا اور یہ ساری کمپنیاں 2007کے بعد بنائی گئیں، معاون خصوصی نے کہا اثاثوں میں اس تیزی سے اضافے کے پیچھے جو ذرائع ہیں وہ غیر ملکی ٹی ٹیز ہیں اور وہ ٹی ٹیز بھیجنے والے منظور پاپڑ والا، محبوب علی اخبار فروش اور رمیزشاہد سیلز مین جیسے غریب افراد شامل ہیں جنہوں نے شاید پنجاب سے کبھی قدم بھی باہر نہ رکھا ہو اور وہ انہیں لندن اور دبئی سے لاکھوں ڈالرز کی ٹی ٹیز بھیجتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہاں سے ہی کالا دھن ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے باہر بھجوایا جاتا تھا اور پھر اسے ٹی ٹی کے ذریعے سفید کر کے کاروباری اثاثوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے علم ہوا کہ جی این سی ایک فرنٹ کاغذی کمپنی تھی جس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی وہ پیسے اس میں جمع کروائے گئے اور یہیں سے کیش کی صورت نکال کر ان کے مختلف منصوبوں میں بھی لگائے گئے اور ذاتی اکانٹ میں بھی جمع کروائے گئے۔ ان کے مطابق اس کمپنی کو 2فرنٹ مین نثار احمد گل اور علی احمد چلاتے تھے دونوں اشخاص سلمان شہباز کے دوست اور کلاس فیلوز بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف شہباز شریف کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کے معاملات کا میں ذمہ دار نہیں ہوں تو ایک جانب آپ کے بچوں کے دوست فرنٹ کمپنیاں چلاتے ہیں جن سے ٹرانزیکشنز بھی ہورہی ہیں اور انہیں وزیراعلی ہاس میں اہم سرکاری عہدے بھی دیے ہوئے تھے جس میں ایک ڈائریکٹر پولیٹکل افیئرز تھا اور ایک ڈائریکٹر پالیسی تھا۔ معاون خصوصی نے کہا کہ شہباز شریف کے خاندان کی فرنٹ کمپنیوں کا پورا نیٹ ورک ہے جس میں درجنوں ایسی کمپنیز کی نشاندہی ہوئی جو ان کے بچوں کی کمپنیوں کے ملازمین کے ناموں پر بنائی گئیں جن میں اربوں روپے ڈالے گئے اور کیش کی صورت نکالے گئے یا ان سے ٹی ٹیز کروایء گئیں یا مختلف اثاثے بنائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف سے پہلے بھی 18سوال پوچھے جن کے جوابات نہیں ملے لہذا میں اب 10سوال پچھ رہا ہوں۔ ان کا مزید کہنا شریف فیڈ مل کے ملازم راشد کرامت مسیح کے نام پر نثار ٹریڈنگ کمپنی قائم کی گئی جس میں 42کروڑ کروڑ 50لاکھ روپے آئے اور یہاں سے نکالے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پھر رمضان شوگر ملز کے ملازم شکیل احمد کے والد گلزار احمد کے نام پر خان ٹریڈنگ کمپنی قائم کی گئی اور اس میں 45کروڑ روپے ڈال کر نکالے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح چنیوٹ پاور ملز کے ملازم خضر حیات مظہر کے نام پر حیات ٹریڈنگ کمپنی قائم کی گئی جس میں ایک ارب 14کروڑ روپے جمع کیے گئے۔ مزید یہ کہ رمضان شوگر ملز کے ملازم توقیر الدین اسلم کے نام پر فائن اور نیو سپر ٹریڈنگ کے نام سے کمپنی قائم کی گئی جس میں 47کروڑ 50لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ علاوہ ازیں شہباز شریف گروپ ہیڈ آفس ماڈل ٹان کے چپڑاسی ملک مقصود احمد کے نام پر مقصود اینڈ کمپنی قائم کی گئی جس میں ایک ارب 5کروڑ روپے منتقل کیے گئے۔ اسی طرح رمضان شوگر مل کے ملازم اظہر عباس کے نام پر ایک نے نامی بینک اکانٹ کھلوایا گیا جس میں 35 کروڑ روپے کی رقم جمع کی گئی اور بعد میں نکلوا بھی لی گئی۔ معاون خصوصی نے کہاکہ رمضان شوگر ملز کے ہی ایک اور ملازم محمد انور کے نام پر اکانٹ بنا کر 48کروڑ روپے اس میں منتقل کیے گئے، غلام شبیر نامی ملازم کے نام پر بے نامی اکانٹ بنایا گیا جس میں 50کروڑ 70لاکھ روپے جمع کروائے گئے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ رمضان شوگر ملز کے ہی ایک اور ملازم تنویرالحق کے نام پر بے نامی اکانٹ بنایا گیا جس میں 21کروڑ روپے جمع کروائے گئے، چنیوٹ پاور مل جو ایک آئی پی پی ہے اس کے ملازم اقرار حسین کے نام پر بنائے گئے بے نامی اکانٹ میں 64کروڑ روپے جمع کروائے گئے۔ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ان تمام ٹرانزیکشن کی مجموعی رقم تقریبا 17ارب 40 کروڑ روپے ہیں، او جن ملازموں کے ناموں پر یہ سب کیا گیا وہ 17ہزار روپے سے 70ہزار روپے ماہانہ پرشریف گروپ میں ملازم تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شریف گروپ شہباز شریف کے خاندان کا ہے اور یہ تمام کمپنیاں 2007کے بعد قائم کی گئیں صرف رمضان شوگر ملز جو خاندانی تصفیے کے بعد شہباز شریف کے حصے میں آئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اولڈ ایج بینفشریز کے ڈیٹا کے مطابق یہ سب ان کمپنیوں کے ملازم ہیں جن کے اکانٹس یا ان کمپنیوں کے اکانٹس میں اربوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوئیں جن کے جواب سے آپ کترا نہی سکتے۔ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ میں ان سے 10سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ کی ایک فرنٹ کمپنی راشد کرامت ولد کرامت مسیح لاہور کی کچی آبادی مکہ کالونی واقع گلبرگ میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر اور شریف فیڈ ملز میں 18ہزار روپے ماہوار پر ملازم ہے اس کے اکانٹ میں 45کروڑ روپے کی خطیر رقم کس ذرائع آمدن سے منتقل ہوئی؟شہزاد اکبر نے سوال کیا کہ شہباز شریف آپ کہتے تھے کہ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہوگئی تو آپ رضاکارانہ طور پر سیاست سے دستبردار ہو کر قانون کے حوالے کردیں گے تونثار ٹریڈنگ کمپنی میں مختلف ٹریڈرز اور بلڈرز کی جانب سے کی گئی 20ٹرانزیکشنز کی کس طرح تردید کریں گے جو وہاں سے نکل کر آپ کے اکائونٹ میں بھی جمع ہوئے۔
شہزاد اکبر
اسلام آباد+ لاہور (وقائع نگار خصوصی+ نیوز رپورٹر) شریف خاندان کے ترجمان نے شہبازشریف اور شریف خاندان پر بے بنیاد الزامات اورکردار کشی کی مذمت کرتے کہا ہے کہ تین سال سے جھوٹے الزامات کی بنیاد پہ شریف خاندان کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ شریف خاندان کے خلاف کردار کشی اور میڈیا ٹرائل افسوس ناک ہے۔ نیب کے اندر تفتیش کے دوران کیا سوال جواب ہوئے، اس کی تصوراتی اور جھوٹی تصویر کشی مقدمے پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے، جن ٹرانزیکشن کا دعوی کیا جارہا ہے، ان میں بھی کرپشن کہاں ہے ایک سال سے حمزہ شریف جیل میں ہیں لیکن ابھی تک کوئی الزام یا کوئی ریفرنس نیب دائر نہیں کرسکا ۔ ترجمان نے کہا کہ دو سال سے شریف خاندان کے دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں ، تمام دستاویزات اور ریکارڈ چوری کیا گیا کسی وارنٹ اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نیب گردی کی گئی، اس کے باوجود کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، ?ملازمین کو گرفتار کیا گیا، ان کو تشدد کا نشانہ بنایا ، اس کے باوجود کوئی جھوٹا الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ترجمان شریف خاندان کا مزید کہنا تھا کہ آشیانہ، صاف پانی، گندا نالہ، 56کمپنیاں، ملتان میٹرو سمیت کسی مقدمے میں شہباز شریف پر بدعنوانی، کک بیکس، کرپشن یا عوامی سرمائے کے ایک روپیے کے غلط استعمال کا الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ شہزاد اکبر کے پاس شہباز شریف عمران کے ساتھیوں کی شوگر ملز ہیں کن کی جیبوں میں پیسہ گیا جس موضوع پر شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کی اس کا شہباز شریف سے کیا تعلق ہے شہزاد اکبر کو چیلنج ہے ایک ایسا چیک دکھائیں جس پر شہباز‘ حمزہ یا سلمان کے دستخط ہوں شہباز شریف خاندان کا تمام بزنس قانونی اور ایف بی آر میں ظاہر شدہ ہے ایک کمپنی کا بتائیں جس سے شریف خاندان کا کاروبار کرتا ہوں اور وہ ایف بی آر میں درج نہ ہو۔ اربوں روپے کے ٹھیکوں میں سے کون سا ٹھیکا شہباز شریف نے دیا ہے شہزاد اکبر بتائیں کون سی کرپشن‘ کمیشن یا کون سا کک بیک لیا گیا ہے علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ قوم کی خدمت کرنے والے قید اور چینی چور دندناتے پھر رہے ہیں۔ حمزہ شہباز ایک سال سے بے گناہ جیل میں قید ہیں۔ شہباز شریف نے کئی منصوبوں میں قوم کے اربوں روپے بچائے۔ نیب کی ایماء پر شہباز شریف کے خلاف پروپیگنڈے کیے جا رہے ہیں۔ کروڑوں روپے ٹیکس دینے والے شہباز شریف کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔ نیب کی اپوزیشن کے حوالے سے بغض کی مثال ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ کو ملک و قوم کی خدمت کرنے کی سزا مل رہی ہے۔