ایسے بادشاہوں کی کہانیاں ہم بچپن سے پڑھتے آرہے تھے کہ جن کے پجاری اْن کے قدموں میں پڑے رہتے تھے۔ ان کے ایک اشارے پر جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے۔بادشاہ کا اشارہ حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ غلط کہتا ہے یا ٹھیک۔ یہ سوچنا بھی گناہ تھا۔ بس بادشاہ سلامت نے جو کہہ دیا وہ اٹل ہے، اْس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ دنیا گلوبل ولیج بن گئی ،ستاروںپر کمندیں ڈال دی گئیں ، چاند پر قدم جما لئے گئے۔ سیاسی حالات اتنی تیزی سے بدلے کہ ہر شخص سیاست سے باخبر رہنے کو فرض عین سمجھنے لگا۔ خاص طور پر یہ صورت حال پاکستان میں سب سے زیادہ نظر آرہی ہے۔اگرچہ ہمسایہ ملک میں بھی لوگ اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یورپ میں چلے جائیں کسی عام بندے سے گفتگو کرکے دیکھئے وہاں آپ کو سیاسی جنونی شاذ ہی نظر آئیں گے۔ بادشاہی نظام، پجاری اور سیاسی جنونیت کا مرکز آج کل اپنا ملک ہی نظر آرہا ہے۔بادشاہ سلامت جن کو چاہے غداری اور وفاداری کا سرٹیفیکیٹ عطا کریں۔ یہ سوچ اور رواج عام ہوچکے ہیں کہ جو خان صاحب کے حق میں بولے گا صرف اسے ہی انسان ہونے کا درجہ حاصل ہوگا اور اسے ہی ملک کا وفادار سمجھا جائے گا۔اب بہت سے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ دراصل شخصیت پرستی ہے اور زیادہ طبقہ اسی شخصیت پرستی کا شکار ہے۔ برداشت، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی کا دور عروج پر ہے۔ کہتے ہیں کہ سقراط کی درسگاہ کا صرف ایک اصول تھا اور وہ تھا برداشت، یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کیساتھ سنتے اور بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے۔سقراط کا کہنا تھا برداشت سوسائٹی کی رْوح ہوتی ہے۔ سوسائٹی میں جب برداشت کم ہوجاتی ہے تو مکالمہ کم ہوجاتا ہے۔ اور جب مکالمہ کم ہوجاتا ہے تو معاشرے میںوحشت بڑھ جاتی ہے۔ یہی صورت حال ہمارے اردگرد دیکھنے میں آرہی ہے۔ تو مان لیجئے کہ برداشت ختم ہوتے ہی رْوح کا وجود نہیں رہا۔ ایک لطیفہ پڑھ کر میں تو بہت محظوظ ہوئی آپ بھی پڑھ کر دیکھئے شاید اس میں آپ کو کوئی پیغام بھی نظر آئے کہ ایک دفعہ چلتی ٹیکسی میں پیچھے بیٹھے ہوئے مسافر نے ڈرائیور سے کچھ پوچھنے کے لئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھاڈرائیور زور سے چیخا اور کنٹرول کھو بیٹھا گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی بہت مشکل سے گاڑی رْکی تو دونوں کی جان میں جان آئی۔مسافر نے کہا معاف کیجئے گا آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے احساس نہیں تھا کہ آپ اتنا ڈر جائیں گے۔ ڈرائیور نے گہرا سانس لیا اور کہا میںپچھلے25سال سے ڈرائیونگ کر رہا ہوں اور میں بہت محتاط ڈرائیور ہوں اصل میں میری آج نوکری بدلی ہے نئی نوکری کا یہ پہلا دن ہے۔ اس سے پہلے 22 سال میں مردہ خانے کی وین چلاتا رہا ہوں۔ سمجھ تو آپ بھی گئی ہوں گے۔ میں سوچ رہی تھی کہ جب گھروںمیں ہر طرف انڈین چینل چلا کرتے تھے تو ہمیں اس بات کا احساس رہتا کہ ہمارے بچوں نے ہندو زبان اور کلچر بولنا اور سیکھنا شروع کردیا ہے۔ انڈین چینلز تو بند ہوگئے اور پھر1سے80یا100 تک تمام چینلز چیک کرتے جائیں80فیصد نیوز چینلز ہیں۔ ہندوانہ رسم ورواج اورکلچر کا خوف تو ختم ہوگیا لیکن سیاسی جنونیت کا فروغ عام ہوگیا۔ دن بھر میں شاید ہی کوئی بندہ آپ کو نظر آئے جو سیاست پر گفتگو نہ کرتا ہو۔ گالی گلوچ، بدتمیزی، بے ہودگی، انتشار، غصہ اور عدم برداشت عام ہوچکے ہیں۔ میں سوچ رہی ہوں نجانے ان دو مختلف حالات میں سے کون سے زیادہ خطرناک ہیں؟ سیاست سے ہٹ کر عوام نے فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور اس کاروبارِ نفرت کو فروغ دینے کا سہرا بھی سیاسی بادشاہوں کے سر ہی جاتا ہے۔ سٹیج پر کھڑے ہوکر اپنے ذاتی مفادات پورے نہ ہونے پر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور اندھی تقلید کا شکار عوام بھی اسی نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ یہ واحد ادارہ ہے جس نے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹ کررکھا ہوا ہے۔ سرحدوں کی حفاظت جن کی ذمہ داری ہے ملک میں ہر طرح کی ہنگامی صورت حال میں یہ فوجی ہی ہیں جو آپ کی مدد کو آن پہنچتے ہیں نہ اپنے آرام و سکون کی پرواہ نہ گھر کی فکر اور آپ ہیں کہ کیسے منہ بھر بھر کر گالیاں نکالتے ہیں، تضحیک کرتے ہیں۔ اصل میں ہم نے اپنے گریبانوں میں کبھی جھانک کر نہیں دیکھا کہ ہم کیا ہیں؟ سابق وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نامناسب زبان کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے اور تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر قومی اسمبلی میں قراردادِ مذمت پیش کی گئی ہے۔میں اسے درست سمجھتی ہوں۔ اگر فوج اس معاملے میں ایسے لوگوں سے سختی سے نمٹنا چاہے تو بھی بالکل درست ہے۔ دن رات لوگوں میں دوسروں کو چور ڈاکو کا راگ الاپ کر نفرت کا بیج تو آپ نے بو ہی دیا تھا۔ اب کیا آپ خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ فوج ایسے بیانات کا بھی سختی سے نوٹس لے اور سوشل میڈیا پر بیٹھے مسخروں اور ارسطو وسقراط بنے فنکاروں کو بھی آڑے ہاتھوں لینا چاہئے اس جگہ نرمی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اصل غداری تو یہ ہے۔