اپنے گزشتہ 25 سالہ تجربہ کی بنیاد پرجس یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس خطے جس کا نام جنوبی پنجاب ہے اس کے عوام ردِعمل میں اتنی شدت اختیار کر لیں گے اور وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے لئے اتنی زیادہ مشکلات پیدا کر دیں گے کہ ان کا حلقے کی عوام سے ملنا ہی ممکن نہ رہے۔ مجھے تو سید عطااللہ شاہ بخاری کے وہ الفاط جو انہوں نے اس خطے کے حوالے سے کہے‘ تھے بھولنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے، مگر میں کسی دن سید عطا اللہ شاہ بخاری کی قبر مبارک پر جا کر انہیں آگاہ کروں گا کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں۔ یاد رہے کہ سید عطا اللہ شاہ بخاری نے جنوبی پنجاب بارے کہا تھا، لگتا ہے کہ میں نے کئی سال قبرستانوں میں اذانیں دی ہیں جس طرح اذان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مردے اٹھ کر نماز کے لئے نہیں جا سکتے اس طرح اس خطے کے لوگ بیدار نہیں ہو سکتے۔ سید عطا اللہ شاہ بخاری کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا مگر وہ تحریک ختم نبوت کے حوالے سے پورے انڈیا کے دورے کرتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل اپنے دورے کے سلسلے میں وہ ملتان میں ایک گرم رات کے آخری پہر خطاب کر رہے تھے کہ مجمع کا سکوت توڑتی ہوئی کسی مجذوب کی آواز بلند ہوئی ’’سیدا شالا ایتھائیں دفن تھیویں ہا‘‘ مطلب سید صاحب اللہ کرے آپ اسی شہر میں دفن ہوں۔دعا کی قبولیت دیکھیں کہ قیام پاکستان کے بعد سید عطا اللہ شاہ بخاری نے ملتان ہی کو اپنا مسکن بنا لیا اور وہ یہیں آسودہ خاک ہوئے۔
میں نے گزشتہ دنوں لکھا کہ جنوبی پنجاب سے وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ بہاولپور کے علاقہ اچ شریف میں گیلانیوں کے خلاف کوئی آواز بلند ہو اس کا تصور بھی محال ہے۔ جنوبی پنجاب کے منحرف اراکین اسمبلی میں اچ شریف سے سید سمیع الحسن گیلانی بھی تھے۔ گیلانی خاندان کے گھر کے احاطے کے ساتھ ہی عیدگاہ موجود ہے۔ خاندان کے بڑوں نے سمیع الحسن گیلانی سے کہا کہ آپ عید پڑھنے نہ جائیں کیونکہ اچ شریف میں بھی احتجاج اور شدید ردِعمل کا خدشہ تھا پھر فیصلہ ہوا کہ دو درجن پولیس اہلکار بلائے جائیں اور پھر وہ پولیس کے حصار میں عیدگاہ پہنچے مگر اس کے باوجود نعرہ لگ ہی گیا۔ عجلت میں نماز ختم ہوتے ہی وہ گھر کی طرف گئے اور عید کے بعد سے آج تک وہ گھر سے باہر نہیں نکلے۔ میں نے ان معلومات کو اچ شریف کے نمائندوں سے کنفرم کیا اور مجھے بتایا گیا کہ عوام میں اتنا شدید ردِعمل ہے کہ شائد ہی سمیع گیلانی الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکیں۔
بہاولپور سے ہمارے ایڈووکیٹ دوست نے بتایا کہ طارق بشیر چیمہ جن کو اپنے معاملات کے لئے ایم کیو ایم کی طرح ہر حالت میں حکومت کے ساتھ رہنا ہوتا ہے اور اس فارمولے کے تحت وہ ساڑھے تین سال عمران خان کے اتحادی کے طور پر بہاولپور کو ہر طرح سے کنٹرول میں رکھنے کے بعد اب مسلم لیگ کی صفوں میں آکر اپنے ’’جملہ اور بقایا‘‘ امور کی تکمیل چاہتے ہیں جس پر ضلع بھر کی لیگی قیادت اور سب سے بڑھ کر چوہدری سعود مجید گروپ سخت نالاں ہے۔بہاولپور میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنان کو یہ فیصلہ ہضم نہیں ہو رہا اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت میں ضلع بھر کی انتظامیہ پولیس اور دیگر تمام محکمے چوہدری طارق بشیر چیمہ کو پہلے کی طرح جواب دہ نہیں رہے اور ان کی بات آج حکم کا درجہ نہیں رہی۔ چوہدری سعود مجید اچھے بزنس مین تو ہیں اور شرافت کا معیار بھی مگر ابھی بھی وہ پاکستان کی مروجہ سیاست سے کوسوں دور ہیں۔ اب عوام کوئی تبدیلی لائیں تو لائیں دوسری طرف بلیغ الرحمن کے گورنر نامزد ہونے کے بعد انتظامیہ اور سرکاری اداروں کا جھکاو ان کی طرف ہو گیا ہے۔ بہاولپور اور یزمان سے جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق تو آئندہ الیکشن میں کامیابی چوہدری طارق بشیر چیمہ کے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان ہو گی کیونکہ وہ پچھلی مرتبہ بھی ساڑھے تین ہزار ووٹوں سے بمشکل کامیاب ہوئے تھے۔اس مرتبہ بہاولپور کے نواب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں اور دوسری طرف یہاں بھی اچ شریف کی طرح لوٹوں کے خلاف شدید ردِعمل پایا جاتا ہے ویسے بھی بہاولپور شہر ہمیشہ مسلم لیگ ہی کا گڑھ رہا ہے۔ طارق بشیر چیمہ نے سمارٹ کارڈ کھیلا کہ عمران خان کی حکومت نے بحالی صوبہ بہاولپور کا وعدہ پورا نہیں کیا اسلئے انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔ انکے اس موقف پر نوائے وقت بہاولپور کے بیورو چیف شاہد بلوچ نے سوال کیا کہ پھر تو آپ نے مسلم لیگ کو ووٹ ڈالتے وقت ان سے یہ یقین دہانی اور وعدہ لے لیا ہو گا کہ مسلم لیگ اقتدار میں آتے ہی بہاولپور صوبہ کی بحالی کا وعدہ پورا کریگی جس پر طارق بشیر چیمہ لاجواب ہو گئے اور تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
اس صورتحال کے برعکس سرداری نظام میں روجھان اور ڈیرہ غازیخان کے ٹرائبل ایریاز میں عوام کو صرف سردار سے غرض ہے اور سرداری نظام میں ووٹر صرف اور صرف اپنے سردار ہی کو ووٹ دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بلوچ دیر تک اپنے سردار کے خلاف لب کشائی کرتا رہا مگر ووٹ دینے کی بات ہوئی تو کہنے لگا کہ سردار کی پالیسی سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ووٹ تو سردار ہی کا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے پنجاب کے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے ٹرائبل ایریا کو ختم کر کے باڈر ملٹری پولیس کو پنجاب پولیس میں ضم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر سردار عثمان بزدار اپنی سرداری کیسے ختم ہونے دیتے کہ بنی گالا میں ان کی لابی مضبوط تھی انہوں نے چیف سیکرٹری پنجاب سے اس کا نوٹیفکیشن ہی جاری نہ ہونے دیا اور پھر عمران خان اپنے اس اصولی فیصلے بارے بھی بھول گئے اور ڈیرہ غازی خان کے ٹرائبل ایریا میں سرداری نظام بدستور قائم دائم ہے۔
ان حالات میں جہاں ایک طرف وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتوں پرجوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے بھی شدید دباو ہے۔ یہ دباو حکومتی اتحاد پر بہت زیادہ اس لئے بھی ہے کہ انہیں حکومت بنانے کے لئے بہت سے کمپرومائز کرنے پڑے ہیں اور آئے روز اتحادیوں کے مطالبات‘ بڑھتی مہنگائی ‘ڈالر کی اونچی اڑان ‘سٹاک ایکسچینج کی تباہی اور دوست ممالک کے عدم تعاون نے بھی حکومت پر ناقابل برداشت دباو ڈال رکھا ہے۔ یہ بھی توجہ طلب ہے کہ سری لنکا میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور وہاں حکمرانوں کے گھروں کو مشتعل عوام نذر آتش کر رہے ہیں۔ گلوبل ویلج کے دور میں سری لنکا کیا‘ دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان سے دور نہیں لہٰذاوقت کا تقاضا ہے کہ حالات سنبھال لئے جائیں‘ قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے ۔
٭…٭…٭