وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے ملاقات میں اظہار خیال کیا کہ وہ ایڈمنسٹریٹر ہی نہیں بلکہ سیاستدان بھی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ بالکل درست دکھائی دیتا ہے کیو نکہ گزشتہ دہا ئی کے اہم واقعات میں ان کا کردار انتہا ہی اہم رہا ہے۔ 2014 ء کے دھرنوں سے چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی بیک ڈور کی سیاست نے مسلم لیگ ن کو بطور سیاسی جماعت کیا فائدہ اور کیا نقصان پہنچایا اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے تاہم میاں شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کو ایک متحد اور عوام میں مقبول ترین سیاسی جماعت بنایا ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں ان کے دور میں ہونے والی تعمیر وترقی شہباز سپیڈ کا چین سے ملنے والا خطاب اور ترکی و عرب ممالک سے گہرے دوستانہ تعلقات ان کی شخصیت کا خاصہ رہے ہیں جبکہ چوہدری نثار علی خان کا کردار مسلم لیگ ن کے حوالے سے منفی رہا ہے اسلئے اب وہ گمنام جبکہ شہباز شریف پاکستان کی سیاست میں آفتاب کی طرح ابھرے ہیں۔ ان کا انتخاب موجودہ حالات میں موزوں ترین کیوں ہے اسکا ذکر بھی کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ان کی خدمات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف سے ان کا احترام ہمیشہ سے غالب رہا۔ شہباز شریف کا سیاسی امتحان پرویز مشرف دور میں بھی لیا گیا جس میں انہوں نے اپنے بھائی میاں نواز شریف کو مقدم رکھا۔ پرا جیکٹ عمران خان کے آغاز پر شریف فیملی کو دیوار سے لگانے کا عمل شروع ہوا تو مسلم لیگ ن کو بطور جماعت کڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران بھی شہباز شریف کے بیک ڈور رابطوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ مسلم لیگ ن کی 2013 ء سے قائم ہونے والی مرکز و پنجاب حکومت میں بھی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو ایک پیج پر لانے کی کوششیں پراجیکٹ عمران خان کی وجہ سے شاید کا میاب نہیں ہو ئیں البتہ میاں نواز شریف کو علاج کیلیئے بیرون ملک بھجوانے میں بھی شہباز شریف کا اہم کردار رہا۔ 2019 ء میں جب پراجیکٹ عمران خان سے مایوسی ہوئی تو پھر شہباز شریف کی اہمیت روز بروز بڑھتی گئی ۔
معروف محاورہ ہے کہ سو سنار کی ایک لوہار کی بالکل اس محاورے کے مطابق میاں شہباز شریف نے پراجیکٹ عمران خان کے خاتمے کیلئے آخری ضرب لگادی۔ قارئین تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا سہرا آصف زرداری کے سر پر باندھا جا رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی شہباز شریف کی بیک ڈور کوششوں کی وجہ سے ہوئی۔ پراجیکٹ عمران خان کی ناکامی کے بعد شہباز شریف واحد آپشن تھے جو نہ صرف پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر عالمی سطح پر قابل قبول تھے بلکہ ملک کو در پیش مسائل کا مداوا بھی سمجھے جاسکتے ہیں۔ شہباز شریف ایک مقناطیسی خصوصیات کے حامل سیاستدان ہیں اگرچہ میاں نواز شریف نے ہی ان کی گرومنگ کی ہے لیکن میاں نواز شریف کی وجہ سے ہی وہ کھل کر اور بھر پور انداز میں سیاست نہیں کر سکے ہیں۔ میاں نواز شریف کی غیر موجودگی میں انہیں سیاسی میدان میں خود کو منوانے کا موقع ملا اور انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی انتہائی زیرک سیاستدان ہیں۔ معاشی چیلنجز کے خاتمے اور دوست ممالک سے بہترین تعلقات کیلیئے ان کا انتخاب کیا گیا ہے اور امید ہے وہ اس میدان میں ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ اگر وہ ناکام ہوئے تومسلم لیگ ن اگلا الیکشن ہار بھی سکتی ہے۔
میاں شہباز شریف جس وقت حکومتی کشتی میں سوار ہوئے اس وقت ملک ڈیفالٹ کی جانب تیزی سے گامزن تھا۔ شہباز کی اصلاحات کی بدولت ملک کرائسس سے نکل سکتا ہے بشرط کہ انکی پالیسیز مانیڑنگ کرنے کی بجائے انہیں سپورٹ کیا جائے۔ مداخلت شہباز کی وزارت عظمی کے لیے خطرناک ہے جو ملک کے لیے بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔خبر یہ ہے کہ لندن میں ہونے والی ملاقات میں طے پایا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے مسلم لیگ ن اعلی عدلیہ سے رجوع کرے گی۔ پٹرول پر سبسڈی بحال رکھ کر عوام کو مہنگائی کے گھن چکر سے بچایا جائے گا اور عمران خان کے جارحانہ رویے کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
٭…٭…٭