"تو معاف کر دیئے جاتے پاک کر دئیے جاتے"

شاز ملک 
یہ زندگی آزمائش کی ڈگر ہے جہاں پل پل دکھ درد کے کانٹے بکھرے ہو? ہیں  سوچ کر دیکھیں غور و فکر کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ 
‘‘یہ زندگی گو کہ خواہشوں کا گھر ہے مگر پھر بھی یہ آسائش کا نگر نہیں ہے۔۔ بلکہ آزمائش کی ڈگر ہے ‘‘تبھی تو انسان روتے ہو? اس دنیا میں آتا ہے۔اور اسکی واپسی کا سفر حیرانی اور خاموشی پر ختم ہوتا ہے۔  انسان خطا کا پتلا ہے۔۔ گناہگار ہے۔۔ سیاہ کار ہے۔۔ ریا کار ہے۔ اسکے دل کی آرزوؤں کی کوئی حد نہیں سو ان آرزوؤں کو پورا کرنے کے لئے شیطانی بہکاوے میں آ کر گناہ کر بیٹھتا ہے۔اور تب وقت پکار کر کہتا ہے ان لمحات کو غنیمت جانتے۔تو بہتر ہوتا  مگر سچ بات ہے کہ روح کی سفید چادر پر لگے گناہ کے  سیاہ دھبے یوں ہی صاف نہیں ہوتے آنکھوں کے دریا سے ڈول بھر بھر کر ندامت کے ہاتھوں سے مل مل کر دھونا پڑتا ہے کیا ہو جاتا اگر داغ لگتے ہی توبہ کا مصلے بچھا کر ندامت کے پانی سے بدنما داغ دھو کر بر وقت روح کو پاک صاف کر دیتے تو معاف کر دیئے جاتے  پاک کر دئیے جاتے۔۔۔دل کے پیالے میں پڑے عطا  کے میٹھے شربت کو گھونٹ گھونٹ  پر شکر ادا کرتے ہو? پیتے رہتے سر جھکا?۔راہ حق پر چلتے رہتے۔۔مگر یہ کیا تکبر کے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر سر اونچا کر کے اکڑ سے اکڑتے ہو?  تکبر کے گھوڑے پر سوار ہوکر غرور اور کم ظرفی کے گندے جوہڑ  میں نہ جا گرتے تو معاف کر دئیے جاتے پاک کر دئیے جاتے۔"۔۔سچ کی آنکھوں پر جھوٹ کی کالی پٹی باندھ کر لفظوں کا ہیر پھیر کر کے۔کسی معصوم کیدل کے سفید کاغذ  کو درد کی کالک سے نہ بھر دیتے  تو معاف کر دئیے جاتے پاک کر دیئے جاتے۔۔زندگی نے اگر . پھولوں کی دکان پر عطر کشید کرنے کا کام دیا تھا تو ایمانداری سے کرتے رہتے ..بد دیانتی کے مرتکب نہ ہوتے۔۔ بدزبانی بدگمانی کے کانٹوں کے  تھور کے پودے دل کی زمین میں نہ لگاتے جو وقت گزرنے پر تناور درخت بنتے بلکہ اپنے اخلاق کردار کے گلشن سے سچائی کے گلوں سے عطر  کشید کر کے لوگوں میں اپنے اخلاق کی خوشبو بانٹتے ہو? انکے دل جیتتے رہتے  تومعاف کر دئیے جاتے پاک کر دیئے جاتے۔۔ نعمت کی عطا پر مالک کے حضور شکرانِ نعمت یوں ادا کرتے شکر کے لمبے لمبے سجدوں میں قدر کے بے مول آنسو رول دیتے۔۔نعمت کو بے قدری کے کوڑے دان میں پھینک کر کفرانِ نعمت نہ کرتے  ضائع نہ کرتے تو معاف کر دئیے جاتے پاک کر دیئے جاتے۔۔۔زندگی کے کشکول میں ڈالے گئے سانسوں کے سکوں کہ ختم ہونے سے پہلے عجز  کے دروازے کے اندر داخل ہو کر ْ توبہ کے دریا میں غسل کر لیتے۔اور پھر رب پاک کے حضور سجدے میں گر کر  کردہ ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کرتے۔۔ کسی کو معاف کرتے کسی سے معافی مانگتے ہو? سرخرو ہو جاتے تو معاف کر دیئے جاتے پاک کر دیئے جاتے معاف کر دئیے جاتے پاک کر دئیے جاتے۔

ای پیپر دی نیشن