آئی ایم ایف کے پیٹ میں پینشن کا مروڑ کیوں؟؟؟

پاکستان میں آ ئی ایم ایف نہیں آتا۔ پاکستان کی کمبختی آتی ہے۔ حکومت بار بار کہتی ہے کہ جی ہمیں آ ئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔ حکومت ٹھیک کہتی ہے ۔ وا قعی انھیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے کیونکہ آئی ایم ایف جن کڑی شرائط پر پُر کشش اور بے انتہا قرضے دیتی ہے۔ اُس سے حکومیتں عیاشیاں کر تی ہیں۔ کوئی شخص ثا بت نہیں کر سکتا کہ آئی ایم ایف سے ابتک وصول کئیے جانے والے قرضوں سے ایک روپیہ بھی عوام پر لگا یا گیا ہو۔ یہ سارا قرضہ حکومت ہڑ پ کر جاتی ہے۔ اگر حکومت کا حصہ بننے والے چند ہزار افراد کروڑ پتی تھے تو وہ محض چند دنوں میں ارب پتی بن جاتے ہیں۔ ارب پتی فوراً کھرب پتی بن جاتے ہیں۔ انکے بچے ، اولادیں، نسلیں، رشتے دار اوردوست احباب ترقی کرتے ہیں۔ صرف انکے اثا ثے بڑھتے ہیں۔ پاکستان ہر نئے دن میں تباہ برباد ہو رہا ہے۔آئی ایم ایف ہمیشہ بجلی پانی گیس پٹرول اور اشیا ئے خوردنی پر ٹیکس لگواتا ہے۔ غریبوں پر نئے نئے ٹیکس لگانے کی شرائط رکھتا ہے۔ آج تک آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کے لیے یہ شرائط عا ئد نہیں کیں کہ کابینہ کے نام پر فوج ظفر موج رکھنے کا کیا مقصد ہے؟ کبھی آئی ایم ایف نے یہ نہیں کہا کہ حکومت اپنے اللّے تلّلے ختم کرے۔ آئی ایم ایف نے یہ شرائط عائد کیوں نہیں کیں کہ وزیر اعظم اوراُسکی کابینہ بھاری بھر کم تنخواہیں نہیں لے گی۔ اربوں روپے کے مراعات بجلی پانی گیس پٹرول گا ڑیاں اور کنالوں پر محیط بنگلے کو ٹھیاں کسی بھی حکومتی رکن کو نہیں دی جائیں گی۔ کوئی جہازوں میں نہیں گھومے گا۔ آئی ایم ایف یہ شرط عا ئد کیوں نہیں کرتی کہ حکومت سے متعلق ہر شخص اپنے اخراجات خود اٹھائے گا۔  آئی ایم ایف حکومت کی عیاشیاں کیوں نہیں بند کراتی؟ آئی ایم ایف یہ شرط کیوں نہیں لگا تی کہ ہر حکومتی رکن کو اپنے اثا ثوں اور آمدن کے مطا بق ٹیکس ادا کر نا ہو گا اور دیا گیا ٹیکس گوشواروں میں ثا بت بھی کرنا ہو گا۔اگر  آئی ایم ایف صرف پچا س ہزار افراد پر ٹیکس وصول کرے تو پورا ملک خو شحال ہو سکتا ہے۔ عوام کو پھوٹی کوڑی نہیں ملتی مگر وہ اپنی ہڈیوں کا بالن کر کے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ پچاس ہزار افراد وہ ہیں جن میں سے اکثر حکومت میں ہیں۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراء، مشیر، بیو رو کریٹ اور معتمد خواص وغیرہ۔ اسکے علاوہ ان سب کے رشتے دار اوردوست احباب۔اسکے علاوہ کاروباری طبقہ جو ہر سال کروڑوں کماتا ہے لیکن سارا کاروباری طبقہ ٹیکس کے نام پر ٹکا نہیں دیتا۔ اس ملک میں کرپشن کرنے والے عنا صر۔ انکی آمدن ، اثا ثے، اخراجات، عیا شیاںدیکھیں۔ یہ لوگ کروڑوں روپیہ اڑا تے ہیں لیکن پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ اس ملک کے بہت سے نام نہاد بڑے اور حقیقت میں ’بونے‘  ٹیکس نہیں دیتے۔  آئی ایم ایف نے کبھی حکومت کو یہ نہیں کہا کہ سا دگی اپنائو اور عیش و عشرت بند کرو۔  آئی ایم ایف وہ پھا پھا کٹنی ہے جو اسرائیل کی بھی ماں لگتی ہے۔ اسکی مثال وہی ہے کو جو ملک گُڑ کھا کر مر سکتا ہے، اُسے زہر دیکر بدنام کیوں ہوں۔ پورا ملک گروی رکھ دیا ہے اور عوام پر اتنے ٹیکس لگا دئیے ہیں کہ کسی دن عوام مشتعل ہو کر اس ساری اشرافیہ پر حملہ کر دے گی۔ ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ وزیر اعظم ہائو س کی تزئین و آرائش پر 162.5 ملین منظور کیے گیے ہیں۔ جیسے نکمّے نالائق، معمولی شکل صورت کے مرد عورتیں ہر وقت ملبوسات، میک اپ، جیولری۔ فیشن، فیشل، آرائش و زیبا ئش، بڑی گا ڑیوں، ہوٹلنگ کی شوقین ہو تی ہیں۔ ایسے ہی نکمّے ناکارہ حکمران تھری پیس سوٹ ، چمچماتے جوتوں، گا ڑیوںاپنی ظاہری آرائش و زیبائش اور وزیر اعظم ہائوس یا وزیر اعلیٰ ہائوسز کی تزئین آرائش پر کروڑوں اربوں خرچ کر کے قومی خزانے کو خالی کر دیتے ہیں۔  آئی ایم ایف کو یہ ناجائز اخراجات نظر نہیں آتے۔ حق تو یہ ہے کی جیسے اسرائیل نے فلسطین کو تباہ برباد کر کے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے، بالکل اسی طرح  آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا کرتباہ برباد کر دیا ہے۔ یاد کریں آئی ایم ایف کے قرضوں سے پہلے پاکستان کتنا خوشحال تھا پھر نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ترقی کے نام پر  آئی ایم ایف کو دعوت دی اور پاکستان نے توکیا ترقی کرنی تھی البتہ ان لالچی حکمرانوں کے ذاتی اثا ثوں میں بے پناہ ترقی ہوئی۔  آئی ایم ایف پاکستانی عوام کی بدترین دشمن ہے بلکہ پاکستانی عوام کے لیے شیطان اور ملک الموت ہے۔ پاکستانی عوام کی آمدن نام کو نہیں ہے لیکن وہ سینکڑوں طرح کے ٹیکس ادا کررہے ہیں۔  آئی ایم ایف تنخواہ دار طبقے اور پینشنرز کی جانی دشمن بنی ہوئی ہے۔ ایک شخص جو تقریباً چالیس اپنی زندگی کے لگا کر کام کرتا ہے۔ ساری زندگی اُس کی تنخواہ سے بغیر اجازت مختلف مدوں میں ٹیکس کاٹ لیے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ زلزلہ سیلاب آئے، طوفان باد و باراں آئے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا کوئی آفت نازل ہو تو تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں ایک دن یا تین دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر قو می خزانہ کس لیے ہے۔ جو لوگ ساری زندگی دفتروں میں جا کر کام کرتے اور اپنی جوا نیوں کو بڑھاپے میں بدلتے ہیں اُنکی تنخواہوں میں سے مختلف طریقوں سے ٹیکس کاٹا جاتا ہے۔ پھر پینشن کے لیے جی پی/پراویڈینٹ فنڈکی کٹوتی کی جاتی ہے اور جاب کے اختتام پر ملنے والی گریجویٹی پر  At source ٹیکس کاٹا جاتا ہے۔ایک بوڑھے پینشنر کی باقی زندگی کا دارومدا راب اسی معمولی پینشن کی رقم پر ہوتا ہے۔ جو وہ اپنے بڑھاپے، بیماری، بچوں کی تعلیم و شادیوں یا گھر کے لیے بینک میں رکھتا ہے تو ہر سال اس رقم سے باقاعدگی سے زکوۃ اور بینک کٹوتی ہوتی ہے پھر اکھٹی رقم نکلوائی جائے تو پھر ود ہولڈنگ ٹیکس بھی لگتا ہے اور سروس چارجز اسکے علاوہ ہوتے ہیں۔ پھر جب پینشن کمیوٹ کی جاتی ہے تو ملنے والے کیش پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ ملازمین پر ٹیکس لگا نا آسان ہے اس لیے حکومت ان کی خون پسینہ کی آمدن پر ٹیکس لگا تی رہتی ہے۔ حالانکہ پینشن اُس ملازم کی اپنی زندگی بھر کی کمائی میں سے دی جاتی ہے، حکومت کو ئی احسان نہیں کرتی بلکہ پینشنرز کا حکومت پر احسان ہے کہ جس کی وجہ سے حکومت کے خزانے بھر ے رہتے ہیں۔ اگر سارے پینشنرز اپنا حساب کتاب کر کے یکمشت اپنی پینشن وصول کر لیں تو حکومت کا خزانہ خالی ہوجائے۔ جبکہ انفلیشن اور بے حد درجہ مہنگائی کی وجہ سے اصل پینشن در اصل اب آدھی رہ گئی ہے۔ حکومت کو عقل کرنی چا ہیے کہ وہ پینشن پر کو ئی ٹیکس نہ لگائے ورنہ سارے پینشنرز حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور ملک میں سوِل نافرمانی ہو گی۔  آئی ایم ایف کے پیٹ میں صرف اور صرف ’’پینشن ‘‘ کا مروڑ کیوں اٹھ رہا ہے؟؟  آئی ایم ایف تو یہی چا ہتا ہے کہ پاکستان برباد ہو جائے۔ لوگ مہنگائی، بیروزگاری اور ٹیکسوں سے عاجز آ کر حکومت کا تختہ الٹ دے۔ ملک میں خانہ جنگی ہو اور حکومت اور عوام میں ٹھن جائے۔اسکی تا زہ مثال آزاد کشمیر کے حالیہ کشیدہ حالات ہیں۔ اگر پینشن اتنا ہی بڑا بوجھ ہے تو جو لوگ سرکاری عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ اصل تلوار انکے سروں پر لٹک رہی ہے۔  آئی ایم ایف کو پاکستان کے اندرونی معا ملات سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ ہر تین ماہ بعد  آئی ایم ایف کا وفد خوشی خوشی پاکستان کیوں بھاگا چلا آتا ہے۔ جنھوں نے قرض دینا ہے۔ وہ کیوں چل کر بھاگے آتے ہیں۔ ہمیشہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ کنواں ہر وو تین ماہ بعد پیاسوں کے پاس مُشکیں کس کر آجاتا ہے؟  آئی ایم ایف کے پیٹ میں جو ’پینشن‘ کی مروڑ اٹھ رہی ہے تو اسے اپنی حکمت سے ہم وہ جلاب دیں گے کہ پیٹ سے مروڑ اور آنتیں سب نکل جائیں گی۔ حکومت بھی سوچ لے کہ پہلے ہی اس کی مقبولیت دن بدن کم ہو رہی ہے تو اگر اس نے پینشنرز کی پینشن میں کسی قسم کی کٹو تی کی یا ٹیکس لگا یا تو بد دعائوں کے ساتھ ساتھ سولِ نافرمانی بُھگتنی پڑے گی۔ 

ای پیپر دی نیشن