بھارتی عام انتخابات اور جمہوریت!

May 14, 2024

انڈیا میں 19 اپریل سے الیکشن شروع ہو گئے ہیں۔انڈیا کی 25 ریاستوں میں یہ الیکشن ہو رہے ہیں یہ الیکشن یکم جون تک ہوتے رہیں گے کیونکہ انڈیا آبادی کے لحاظ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک سو چالیس کروڑ سے زائد اس کی آبادی ہے۔ اور پچیس صوبوں میں ایک سے چالیس کروڑ عوام کے لیے ایک دن الیکشن کرانا یہ مشکل ہے۔ اب تک دو سٹیٹس میں الیکشن ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے رزلٹ کا آخر میں ایک دن چار جون کو اعلان ہوگا۔
 نریندر مودی جو اس وقت وزیراعظم ہیں یہ دو دفعہ وزارت عظمیٰ گزار چکے ہیں۔ 2014ء میں پہلی دفعہ منتخب ہوئے، 2019ء میں دوسری دفعہ منتخب ہوئے۔ مودی تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ 2014کے الیکشن میں بھارتی جنتا پارٹی نے 542کے ایوان میں283حاصل کی تھیں۔ 2019کے الیکشن میں بھارتی جنتا پارٹی نے 303سیٹیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ اتحادیوں کے ساتھ ملا اس کی کل سیٹیوں 358ہو گئی۔ اس دفعہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا یہ بیانیہ ہے کہ مجھے 400سیٹیں چاہئیں۔اس سے کم پر وہ راضی نہیں ہوتے۔2019کا الیکشن انہوں نے اینٹی مسلم کمپین سے جیتا۔قارئین نوائے وقت کو یاد ہوگا کہ بھارت میں کشمیر کے اندر پلوامہ اٹیک ہوا تھا۔بعدازاں وہ ثابت ہو گیا کہ وہ اٹیک خود ہی کروایا گیا تھا۔یہ فالس فلیگ آپریشن تھا، الیکشن جیتنے کے لیے۔ اس دفعہ 2024کے الیکشن سے پہلے 2023ء میں رام مندر کو بابری مسجد کی جگہ تعمیر کرکے اس کو عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے یعنی یہ بھی ایک مذہبی کارڈ کھیلا گیا۔ اسے بھی فالس فلیگ آپریشن قرار دیا جا سکتا ہے۔2019ء میں اینٹی پاکستان کارڈ کھیل کر جیتے۔ 2024ء میں اب رام مندر بنا کر ہندوئوں کو خوش کرکے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ان کے مقابلے میں دوسری بڑی پارٹی کانگریس ہے جس کی سربراہی راجیو گاندھی کے بیٹے مسز اندرگاندھی کے پوتے راہول گاندھی کر رہے ہیں۔ راہول گاندھی ایک بڑے کریٹیو ،سوشل، پروگریسو ہیں۔اس پالیٹکس میں ان کی مدد ان کی بہن پریانکا گاندھی کر رہی ہیں اوریہ دونوں مل کر کوشش کر رہے ہیں لیکن اس وقت الیکشن سے ابھی کچھ مہینے پہلے تک جو حالات ہیں وہ مسٹر راہول گاندھی اور ان کی پارٹی کانگریس کے لیے سازگار نہیں تھے لیکن ابھی کچھ غلطیاں ،کچھ کوتاہیاں نریندر مودی صاحب نے پھر پاکستان کیخلاف زہر اگل کر،مسلمانوں کے متعلق اور پراپیگنڈا کر کے عوام کے اندر اپنے لیے نفرت پیدا کی ہے۔ آج کل وہ بوکھلائے ہوئے ہیں انہوں نے انڈیاکے دو ٹاپ بزنس مین ہیں ایڈوانی اور امبانی ان کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے۔ امبانی وہی ساری سرمایہ کاری ان کے الیکشن پر کرتے ہیں۔ اور وہی سب سے بڑے بینیفشری ہیں۔یہ بھارت سمیت پوری دنیا کے بزنس مین اور ڈیموکریٹس پارٹیاں ہیں اور لوگ یہ جانتے ہیں۔ اس طرح مسٹر ایڈوانی اور امبانی ان کے متعلق ابھی کل ہی نریندر مودی نے ایک جلسے میں کہہ دیا کہ یہ ڈالے بھر بھر کے ،رکشے بھر بھر کے نوٹ کی بوریاں راہول گاندھی کے الیکشن پر لگا رہے ہیں۔ راہول گاندھی نے اس الزام کو مسترد کیا ہے اور کہا کہ وہ سپورٹر آپ کے ہیں اور نوٹوں کی بوریاں مجھے پہنچاتے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ اپنے سپورٹرز سے پوچھیں جا کر کہ مجھے کہاں نوٹوں کی بوریاں پہنچائیں۔ اس سے ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔
 مودی نے ایک دفعہ پھر رام مندر کا کارڈ کھیل کر ہندو انتہا پسندوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے لیکن اس دفعہ کچھ مشکل نظر آ رہا ہے۔جب میں ایک تجزیہ نگار کے طور پر اس کو دیکھتا ہوں، پوری انڈین ہسٹری ،موجودہ سیٹ اپ ،الیکشن اور اس میں حصہ لینے والی پارٹیوں کو، تواس دفعہ راہول گاندھی نے اکیلے الیکشن لڑنے کی بجائے آل انڈیا الائنس بنا کر الیکشن میں شامل ہوں رہے ہیں اور قوی امید ہے کہ وہ اس دفعہ کافی اچھا رزلٹ دیں گے۔ تیسری بڑی پارٹی اروند کیجریوال کی ہے وہ ایک پارٹیشن ہیں ،دہلی سے ان کا تعلق ہے، وہ پچھلے چار سال سے دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی انہی کی پارٹی کے پاس ہے۔ ان کی پارٹی کا نام ’’عام آدمی پارٹی‘‘ ہے۔یہ نیشنل لیول پر تو بہت زیادہ سیٹیں لینے میں کامیاب نہیں ہوتے لیکن پرونشل میں وہ ہریانہ میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو پنجاب کو تقسیم کرکے بنایا گیا ہے ، ہماچل پردیش میں کافی سیٹیں لے جاتے ہیں وہ بھی پنجاب سے الگ کرکے صوبہ بنایا گیا ہے۔ 
خود پنجاب میں نیشنل اسمبلی کی 543سیٹوں میں سے 13سیٹیں اس کی ہیں۔ اور ان تیرہ سیٹوں میں سے چھ سات سیٹیں راہول گاندھی کی کانگریس پارٹی لے جاتی ہے۔چار سیٹیں عام آدمی پارٹی لے جاتی ہے اور ایک سیٹ بی جے پی کے حصے میں آتی ہے۔ دیکھیں اس الیکشن میں کیا بنتا ہے۔ ابھی مسٹر اروند کیجریوال کو مسٹر نریندر مودی نے دو مہینے پہلے مختلف قسم کے الزامات لگا کر پابند سلاسل کر دیا ہے۔ابھی کل ان کی ضمانت ہوئی ہے۔ کافی الیکشن تو گزر چکا ہے اب الیکشن کے آخری دو تین ویک ہیں ان کو کمپین کی اجازت مل گئی ہے۔
 انہیں کہا گیا ہے جس دن الیکشن کی کمپین ختم ہو، شام کو واپس آ کر آپ نے جیل میں سرنڈر کرنا ہے، یعنی اپنے آپ کو پیش کر دینا ہے ، آپ کو ضمانت اس لیے دی گئی ہے کہ آپ کی پارٹی الیکشن میں حصہ لے رہی ہے۔ تو یہ جمہوریت کا ایک خوبصورت انداز ہے۔ ججز نے بھی اس کو مدنظر رکھا کہ جس شخص پر ابھی تک الزام ثابت نہیں ہوا اس کو پکڑا گیا ،وہ وزیراعلیٰ دہلی ہیں لیکن اس کو بَری نہیں کیا ، اس کے گناہ معاف نہیں کیے ،سپریم کورٹ نے اس کو صرف ضمانت دی ہے کہ آپ جا کر الیکشن کی کمپین کریں۔
 پی ٹی آئی کے چیئرمین کو اس سے پہلے پکڑ لیا گیا، کافی دیر اندر رکھا گیا اور پھر الیکشن کے بعد بھی اندر رکھا گیا ،پی ٹی آئی کو کمپین بھی نہیں کرنے دی گئی ،پی ٹی آئی سے الیکشن کمیشن نے اس کا انتخابی نشان بھی چھین لیا تھا۔اور اس کے امیدواروں کو ایک پلیٹ فارم سے لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔اور ان کے کاغذات نامزدگی تک چھینے گئے۔ تو یہ دیکھیں ایک ہی علاقے میں، ایک ہی جگہ، ایک ہی زبان بولنے والے دو مختلف ممالک ہیں جنہیں ہم اپنا ہمسایہ بھی کہہ سکتے ہیں اور دشمن بھی گردانتے ہیں ان میں اور ہم میں اس قدر فرق ہے۔ 
انڈیا کے اگلے الیکشن میں جو آج کی کرنٹ صورت حال اس وقت یہ ہے کہ آخری الیکشن میں ابھی تین ویک کا ٹائم باقی ہے لیکن میرے تجزیے کے مطابق اور بین الاقوامی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ اس دفعہ نریندر مودی کے لیے مقابلہ بڑا ٹف ہو گا ۔شاید جیت نریندر مودی کی پارٹی کے حصے میں اس طرح نہ آئے جس طرح وہ سوچ رہی ہے۔ کچھ بھی متوقع ہے لیکن ایک بات تو کلیئر ہے کہ دہلی اور مختلف جگہوں پر عام آدمی پارٹی نریندر مودی اور اس کی پارٹی کو ٹف ٹائم دے گی۔ یہ تھے حالات انڈین الیکشن کے متعلق، آخری صوبے میں الیکشن ہونے تک ابھی الیکشن میں کم از کم تین ویک باقی ہیںتو اس کے بعد رزلٹ آئیں گے۔ لیکن بھارت پر اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں ہیں کیونکہ بھارت اس وقت انگلینڈ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت کا اعزاز حاصل کر چکا ہے ۔ خاص طور پر اسرائیل کے مسئلے پر نریندر مودی کی پہلے تو طرفداری اور بعد میں اپنی جگہ بدلنا یہ بھی ایک کھلی منافقت ہے۔ جس کو عرب پتا نہیں پہچانتے ہیں کہ نہیں لیکن دنیا بھر کے ویسٹرن ممالک ان کی چالوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔انڈیا کے الیکشن سے پاکستان کے الیکشن کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔وہاں کی جمہوریت مضبوط ہے ،ایک د فعہ بھی حکومت کو گھر واپس نہیں بھیجا گیا ،کبھی مارشل لا ء نہیں لگا ،کوئی ڈکٹیٹر نہیں ہے، جب کہ پاکستان ماشاء اللہ اس سلسلے میں کافی خودکفیل ہے۔اور ہاں انڈیا میں الیکٹرانک ووٹنگ ہو رہی ہے۔

مزیدخبریں