مسلسل جبر سے دلوں میں ڈر نہیں رہتے   


پاکستان کو وجود میں آئے ایک عرصہ بیت چکا ‘ اگر بیتے ہوئے سالوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو ہم پر آشکار ہوگا کہ پاکستان میں بالا دست طبقات اور سیاستدانوں کے ذہن جمہوری کلچر سے بہت دور تھے جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ عوام الناس کی آزادی اور جمہوری عمل میں فاصلے بڑھتے گئے کیونکہ پاکستان کو وڈیرہ شاہی اور مادر پدر آزادشاہی کلچر آغاز سے ہی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا جس کی وجہ سے تعلیمی شعور اور شخصی آزادی کا تصور بھی انہی گھرانوں تک محدود تھا نتیجتاًعوام جمہوریت کا مطلب محض ووٹ ڈالنا اور ان ووٹوں کے نتیجے میں جیتنے والی نمائندہ حکومت کو ہی برسر اقتدار رہناجمہوریت سمجھتے رہے بائیں وجہ جب بھی عوام کو جمہوری نظام کی خرابیاں نظر آئیں تو ایک نجات دہندہ کی ضرورت محسوس ہوئی جو کہ مسیحا بن کر ان کے مسائل کا حل کرے مگر مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑاجس کی وجہ سے پاکستان نہ ایک مضبوط جمہوری ریاست بن سکا اور نہ آمریت کا ہی بول بالا ہوا لیکن پاکستان ہی وہ واحد ملک نہیں جو روز اول سے سیاسی تھپیڑے کھا رہا ہے بلکہ آج پوری دنیا میں جمہوریت کا مفہوم اور اغراض و مقاصد بدل چکے ہیں
سیاسی طور پر دنیا میں دو قسم کے جمہوری نظام رائج ہیں ایک وہ کہ جس میں اخلاقی قانون سے بالا تر ہو کر خود ساختہ نظریہ ضرورت کے تحت دوسروں کو آزاد دیکھنا چاہتاہے اگرچہ یہ سوچ ذاتی مفادات کے حصول کے ہی گرد گھومتی ہے لیکن اس میں شخصی آزادی سلب کرنے کے ساتھ اپنے خود ساختہ نظام کی ترویج بھی ہوتی ہے اور دوسرا وہ جو اخلاقی قانون کے تابع ہو کر آزادی اور جمہوری عمل سے سرفراز ہونا چاہتا ہے اس سے آمرانہ طرز کا تصور ابھرتا ہے یعنی یہ طے ہوا کہ جمہوری عمل کی جو خود ساختہ شکلیں ہمیں نظر آتی ہیں ان میں نہ جمہور کے لیے جگہ ہے اور نہ حریت کا کوئی وجود ہے لہذا آج آزادی اورحق خودارادیت کا نعرہ جو کہ پوری دنیامیں گونج رہا ہے اور جو ممالک سب سے زیادہ یہ راگ آلاپ رہے ہیں وہاں بھی اقلیتیں پریشان اور تباہ حال ہیں اور اس متعلقہ انسانی حقوق کے سب سے بڑے دعوے دار بھی خاموش ہیں چونکہ یہ بالواسطہ یابلا واسطہ عوام کی رضا اور شخصی آزادی سے جڑا ہوا ایک ایسا شفاف نظام ہے جس کے پیش نظر حکمرانوں کو آقا نہیں عوام کا خادم بنانا ہے جو کہ مسند پر برا جمان کسی بھی حکمران کو قابل قبول نہیں ہے اس لیے جمہوریت پس پردہ آمریت کی بگڑی شکل بن کر اپنی قدر و قیمت کھو چکی ہے یعنی کہنے کو تودنیاکھوپڑیوں کے میناروں سے باہر نکل آئی ہے مگر اس سوچ کا خاتمہ نہیں ہوسکا جو کہ کھوپڑیوں کے مینار سجا کر نا شتہ کرنے کا سبب بنتی تھی چونکہ آج شعور اور آگاہی کا بول بالا ہے یہی وجہ ہے کہ کہیں نہ کہیں کم و بیش آدھی دنیا میں بغاوت کی فضا پیدا ہوچکی ہے نتیجتاً اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی نہ کسی ریاست میں جمہوریت پسند با شعور افراد حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں عمیق نظری سے دیکھا جائے تو دنیا کو جس تیسری جنگ عظیم کا خطرہ لاحق ہے وہ اسی انتشار اور عدم اعتماد کا پیش خیمہ ہے تا دیر عدم مساوات کی اس فضا کو ختم نہ کیا گیاجس کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی ۔۔
سوال تو یہ ہے کہ اصل جمہوری نظام سے خواص خائف کیوں ہیں جبکہ جمہوریت معاشی خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے جس سے عوام پرسکون اور خوشحال ہوتے ہیں کیونکہ عوام کی نمائندہ حکومت جذبہ خدمت اور وطن عزیز کی محبت سے سرشار ہوتی ہے اس لیے مسائل پیدا ہونے سے پہلے ان کا حل تلاش کر لیا جاتاہے،تمام فیصلے پارلیمینٹ سے پوچھ کر ہوتے ہیں، قانون سازی کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا، عدلیہ اور صحافت مکمل آزاد ہوتی ہے،آزادی رائے کی آزادی ہوتی ہے،تمام ادارے اپنے فرائض خلوص دل سے سرانجام دیتے اورسیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوتے ہیں،یہاں تک کہ وزارت یا اعلی مناصب پراگر کسی کو بھی فائز کیا جاتا ہے تو عوام کی رضا مندی سے کیا جاتا ہے جو کہ زبردستی سے نہیں خوشی سے لی جاتی ہے۔اقلیتیوں کو آزادی اور تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں، عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے اور انصاف کا طوطی بولتاہے، احتساب کا مضبوط ادارہ قائم ہوتا ہے جو کہ دلجمعی اور دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے تاکہ ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو یعنی صرف ایک چیز ہے جو نظام کو شفافیت فراہم کرتی ہے اور وہ ہے ’’جواب دہی‘‘ کا خوف جو کہ احتسابی اداروں یا پھر خوف الہی کا ہوتا ہے یعنی طے ہوا کہ جب شتر بے مہار نظام ہوگا‘ خدا کا ڈر نہیں ہوگا‘کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوگاتو آزادی اور جمہوری عمل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا
ہمارے ساتھ یہی ظلم ہواہے کہ بالا دست طبقات ہر قانون سے بالاتر ٹھہرے ، ان کے احتساب کا تصور کرنے والا بھی ملک دشمن سمجھا گیا، ستر دہائیوں سے ان کی اقتداری رسہ کشی جاری ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ خزانہ خالی، کمزور ترین پاکستانی پاسپورٹ اور ہمارے سیاستدان جعلسازی میں دنیا میں دوسرا نمبر لے چکے ہیں مزید عوام کرپٹ ٹولوں سے متنفر ہوچکے ہیں بس چند ایک نوازے ہوئے صحافی یہی راگ آلاپتے ہیں کہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے درحقیقت بہتر ہے اگر شفافیت ہو جبکہ ہمیں شخصی آمریت ہی ملی جس نے اپنے بینک بیلنس جو کہ بیرون ملک ہیں بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔۔تعمیری وعدوں کے نام پر تشہیری منصوبوں پر اپنے نام کی تختیاں لگاتے ہوئے غریبوں کو روندھتے ارب پتی خاندانی حکمران ہوگئے جبکہ وہ غریب بچہ جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے وہ بھی مقروض ہے حالانکہ ہر شخص ٹیکس دیتا ہے! پھر بھی خزانہ خالی اور قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ تبدیلی سرکار کے دور میں ہی لبریز ہو گیا تھا اور میں نے لکھا تھا کہ یہ ستر نوے کی دہائی نہیں ہے ،باز آجائیں ۔۔! آپ کی پوشاکوں کو غریبوں کی آہوں کے شعلے لپٹ چکے ہیںکہ رسوائی اور جگ ہنسائی مقدر ہوچکی ہے اب بس انتشار باقی ہے مگر کرتا دھرتا نے سوچا کہ اس معاشرے میں سب چلتا ہے سو چل جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور عوامی غصہ بڑھتا ہی چلا گیا جس کا عملی مظاہرہ آزاد کشمیر میں دیکھا جا رہا ہے کہ عوام ڈٹ چکے ہیں اور اپنے جائز حقوق کے لیے قانون ہاتھ میں لے چکے ہیں ۔لہو رنگ احتجاج کیا رنگ لائے گا فی الفور کہنا مشکل ہے البتہ ملک کی مجموعی صورتحال اچھی نہیں ہے اور نوزائیدہ حکومت پہلے سے کمزور ہے ، عوام تنگ آچکے ہیں جبکہ کرتا دھرتا کو لگتا ہے کہ یہ صرف ایک انتشاری ٹولے کا کارنامہ ہے جس نے عوام کی برین واشنگ کر دی ہے جبکہ یہ تو ستر دہائیوں کا وہ زہر ہے جو ہر حکمران اپنی حکومت ہٹائے جانے کے بعد عوام کے ذہنوں میں انڈیلتا رہا لیکن ہر مرتبہ معافی کے بعد دوبارہ مسیحا بنا کر پیش کر دیا جاتا اورعوام کو ملتا جبر اور صبر تو یہ دو چار روز کا نہیں آدھی صدی کا قصہ ہے اوریہ نوشتہ دیوار ہے کہ مسلسل جبر سے محسن د لوں میں ڈر نہیں رہتے لہذا صبر کی تلقین بند کر دیں اور عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے 

ای پیپر دی نیشن