انگریزی میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے-Death Wish-ڈیتھ وش کا سادہ ترین متبادل ’’مرنے کی تمنا‘‘ ہوسکتا ہے۔ ایسی تمنا کا ہماری شاعری میں بہت ذکر رہا ہے۔عموماََ یہ تمنا مگر ناکامیوں سے گھبرا کر موت کی طلب گار نہیں ہوتی۔ موت کی یہ خواہش بلکہ حیران کردیتی ہے کیونکہ اس کا طلب گار ’’دنیا‘‘ کو انسان میں موجود رو ح کا عارضی پڑائو شمار کرتا ہے۔ عارضی قیام سے اکتاہٹ اسے ابدی روح کی جانب لوٹ جانے کو بے چین رکھتی ہے۔ اسی باعث صوفیا کی موت کو ’’وصال‘‘ کہا جاتا ہے۔ وصال سے پہلے دور کا نام ’’ہجر‘‘ ہے جسے لاہور کے شاہ حسین نے ’’وچھوڑا‘‘ کہا اور اپنی شاعری میں نہایت دْکھ سے گلہ کرتے رہے کہ وہ اپنے ’’وچھوڑے داحال‘‘ سمجھائیں تو کسے؟
اقبال خود کو رومی کا پیروکار پکارتے تھے۔ ’’لب بام محوتماشہ‘‘ عقل انہیں غصہ دلاتی۔ وہ بے خطر آتش نمرود میں کود جانے کو سراہتے۔ اس کے باوجود ان کے لکھے مضامین کی اکثریت ’’خانقاہی مزاج‘‘ کو برصغیر اور خاص طورپر پنجابی مسلمانوں کے دل ودماغ پر چھائی ’’خوئے غلامی‘‘ کا کلیدی سبب گردانتی ہے۔ غالباََ اس کی وجہ ان کے دور کے ’’مشائخ‘‘ کا رویہ تھا جو انگریزوں کی ٹوڈی (غلام)جماعت یعنی یونینسٹ پارٹی کی حکومت کا اتباع ’’قدرت کا لکھا‘‘ بتاکر جائز ٹھہراتے۔ اس جماعت نے جب ’’سکندر-جناح معاہدہ ‘‘ کے ذریعے متوسط طبقے کی ابھرتی جماعت مسلم لیگ میں نقب لگانے کی کوشش کی تو اقبال تلملااْٹھے۔
حسب عادت اصل موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ذکر تھا ’’ڈیتھ وش‘‘ کا۔ اس نے مجھے ’’وصال‘‘ کی بابت غور کرنے کو مجبور کردیا۔ بات چل نکلی تو اقبال کی شاعری سے ہوتے ہوئے قیام پاکستان سے قبل دہائیوں کی سیاست تک جاپہنچا۔ اس دور کی سیاست کو اگرچہ میں گزشتہ کئی دنوں سے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔آپ یہ جان کر حیران ہوسکتے ہیں کہ برطانوی سامراج کے پنجاب پر قبضے کے بعد سے 1947ء کے برس کے زمانے تک کی تاریخ وحقائق کے بارے میں غور کیلئے مجھے سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلیکس کیلئے بنائی ’’ہیرامنڈی‘‘ نے اکسایا ہے۔ اس کی آخری دو قسطوں میں اس بازار کی دو ڈیرہ دار خواتین جو ایک دوسرے کو ذلیل ورسوا کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو آمادہ تھیں مختلف واقعات سے مجبور ہوکر بالآخر یہ دریافت کرلیتی ہیں کہ وہ حقیقی طورپر انگریزوں کے پروردہ نوابوں اور جاگیرداروں کی ’’غلام‘‘ نہیں ہیں۔’’ہیرا منڈی‘‘ کا اصل ’’آقا‘‘ بھی برطانوی سامراج ہی ہے اور وہ اپنے بازار کو ’’انقلاب-انقلاب‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پرلانے کو متحرک ہو جاتی ہیں۔
مذکورہ اقساط دیکھتے ہوئے میں طنزیہ مسکراہٹ سے یاد کرتا رہا کہ لاہور کے ’’اس بازارسے ‘‘ تحریک آزادی کا کسی بھی نوع کا تعلق نہ تو تاریخ کی کسی کتاب میں پڑھا اور نہ ہی لاہور کے جم پل بزرگوں کی سنائی داستانوں میں کبھی ایسے کسی واقعہ کا ذکر سنا۔ ان کی زبانی بلکہ دل ودماغ میں یہ تاثر جاگزیں ہوا کہ ’’اس بازار‘‘ کی چند خواتین عموماََ پولیس کی ’’مخبر‘‘ ہوا کرتی تھیں۔ چند عادی چور جب کسی گھر میں سرنگ لگاکر وافر مقدار میں سونا اور نقدی حاصل کرلیتے تو عموماََ اس بازار میں موجود ’’مخبر‘‘ خواتین کو بھی ’’الرٹ‘‘ کردیا جاتا۔ لاہور کے چند ’’جندرے (قفل)توڑ‘‘ افراد کا ذکر سن رکھا ہے جو بالآخر کسی بڑی ڈکیتی کے بعد گرفتار ہوئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سنسنی خیز وارداتوں کے تسلسل کے بعد ان کا تواتر سے ’’اس بازار‘‘ میں جانا شروع ہوگیا۔ وہاں تماشائی کی حیثیت میں وہ احمقانہ حد تک ویلیں پھینکتے اور چند نئے امیر ہوئے جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری اس وجہ سے ہوئی کیونکہ انہوں نے کسی مشہور طوائف یا اس کی بیٹی کو فقط اپنے لئے مختص کرنا چاہا تھا۔
یہ کالم مگر ڈیتھ وش سے شروع ہوا تھا اور مجھے اس موضوع تک محدود رہنا ہوگا۔ اس کی جانب لوٹتے ہوئے اطلاع یہ دینی ہے کہ ہفتے اور اتوار کے روز جب بھی ٹویٹر چند لمحوں کو کھلتا تو مجھے وہاں پوسٹ ہوئے بے شمار پیغامات دیکھنے کو ملتے جو اس ’’خبر‘‘ پربہت شاداں تھے کہ سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلمان نے دورہ پاکستان موخر کردیا ہے۔ چند افراد نے ’’موخر‘‘ لکھنے کے بجائے ’’منسوخ‘‘ کا استعمال بھی کیا۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ سعودی پرنس کی پاکستان آمد کی تاریخ طے ہوچکی تھی یا نہیں۔ اسلام آباد میں البتہ یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ وہ مئی 19کے روز ہمارے ملک تشریف لائیں گے۔ ان کی آمد سے قبل سعودی حکومت کے اہم ترین وزراء پر مشتمل ایک وفد پاکستان آیا تھا۔ اس کی آمد کے چند ہی دن بعد وزیر اعظم شہباز شریف سعودی عرب تشریف لے گئے۔ وہاں سے وہ پاکستان لوٹے تو سعودی سرمایہ کاروں کا ایک بڑا وفد پاکستان آیا۔ اس نے یہاں کے صنعت کاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں سے متعدد ملاقاتیں کیں۔ پاکستان- سعودی تعلقات کے حوالے سے گزشتہ چند ہفتوں سے جو اعلیٰ سطحی آنیاں جانیاں تھیں ان کی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی کی خبروں پر نگاہ رکھنے والوں کی اکثریت یہ سوچنے میں حق بجانب تھی کہ غالباََ سعودی شہزادے محمد بن سلمان جلد از جلد پاکستان آنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں ان کا دورہ محض رسمی نہ ہو۔ اس کے دوران پاکستان میں سرمایہ کاری کے چند اہم اور طویل المدت منصوبوں پر سعودی حکومت کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر بھی دستخط ہوجائیں۔ علاوہ ازیں ان شعبوں کی نشاندہی بھی ہوجائے جن پر سعودی اور پاکستانی صنعت کار باہم مل کر سرمایہ کاری کریں۔
شاہزادہ محمد بن سلمان کے متوقع دورہ پاکستان کے ’’موخر‘‘ ہوجانے کا اعلان ہماری حکومت کی جانب سے نہیں ہوا۔ اصولی بات یہ بھی ہے کہ ہماری وزارت خارجہ نے اس ضمن میں کسی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا تھا۔ فقط ’’ذمہ دار ذرائع ‘‘کے حوالے سے حکومت کے قریب تصور ہوتے صحافی یہ خبر پھیلارہے تھے کہ سعودی عرب کے شاہزادہ محمد بن سلمان مئی کی ’’17یا 19‘‘تاریخ کو پاکستان تشریف لائیں گے۔ اب وہی صحافی مذکورہ دورے کے ’’التواء‘‘ کی خبر دے رہے ہیں۔
اگر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان واقعتاً مئی کی 17یا19کیلئے طے تھا تو اس کے ’’التواء‘‘ کی خبر یقینا پریشان کن ہے۔ خاص طورپر اس وقت جب پاکستان سنگین معاشی مسائل کا شکار ہے۔
سوشل میڈیا پر چھائے ایک مخصوص سیاسی رہ نما کے عاشقان مگر اس ’’التواء ‘‘ کے بارے میں بہت شاداں محسوس کررہے ہیں۔ ان کی دانست میں مبینہ ’’التواء ‘‘ یہ پیغام دے رہا ہے کہ شہباز حکومت پردنیا کا کوئی ملک اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو عالمی دنیا نے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ میں ذاتی طورپر شہباز حکومت کا نہ تو مداح ہوں نہ ترجمان۔ پاکستان کی مبینہ ’’تنہائی‘‘ مگر میری فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے تھی۔ متوقع دورے کے مبینہ التواء نے چند افراد کو جس انداز میں خوش کیا اس نے مجھے انگریزی والی ’’ڈیتھ وش‘‘ کی یاد دلادی ہے۔