آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں اور مہنگائی کے حوالے سے ہونے والا پرتشدد احتجاج گھمبیر صورتحال اختیار کر گیا ہے۔ چونکہ کشمیر انتہائی حساس علاقہ ہے اور پھر مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی آزادی کی تحریک کا بیس کیمپ ہے اس لیے دونوں طرف کے کشمیری علاقوں میں ہونے والی سرگرمیوں پر اقوام عالم کی نظریں ہوتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں ہونے والا احتجاج خالصتا مہنگائی، بیروزگاری، بجلی کے ایشوز اور بعض مقامی مسائل بارے ہے لیکن دشمن اس کو کوئی اور رنگ دے کر اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کی خاطر پروپیگنڈہ وار چلا رہا ہے۔ ایسے حالات میں حساسیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ لیڈر لیس احتجاج ہے۔ شتر بے مہار مظاہرین کسی لیڈر کے مرہون منت نہیں۔ مقامی سطح پر مختلف سیاسی سماجی کارکن نئی لیڈر شپ کے طور پر سامنے آئے ہیں جو ٹولیوں کو ہینڈل کر رہے ہیں۔ البتہ اس احتجاج سے سیاسی حلقے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ وہ اس احتجاج کو اپنے طور پر استعمال کرکے اپنے مفادات کی راہ نکال رہے ہیں۔ چونکہ آزاد کشمیر کی حکومت اس احتجاج پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے اس لیے مختلف سیاسی گروپس اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہ رہے ہیں۔ ویسے بھی آزاد کشمیر میں تو زور کی آندھی چل جائے تو عدم اعتماد آ جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے پچھلی حکومت کی تبدیلی سے نتھی کرکے اسے شہریوں کا رد عمل قرار دے رہے ہیں۔ ہم نے آزاد کشمیر کے احتجاج کے پس پردہ حقائق کو سمجھنے کیلئے آزاد کشمیر میں موجود دوستوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ پہلے گلگت بلتستان بھی آزاد کشمیر کے ساتھ تھا تو دونوں علاقوں کو ایک ہی بندوبستی طریقے سے چلایا جا رہا تھا لیکن جب سے حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو علیحدہ شناخت دی اور وہاں کی غربت پسماندگی کو دور کرنے کیلئے اقدامات کیے تو آزاد کشمیر کے باشندے گلگت بلتستان سے اپنا موازنہ کرنا شروع ہو گئے۔ مثال کے طور پر گلگت بلتستان میں آٹا اور گندم پورے پاکستان سے سستی ہے۔ وہاں کے باسیوں کو بجلی بھی نہایت سستے داموں میسر ہے۔ ان میں زیادہ تر مقامی سطح پر کام کرنے والے یونٹس سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ کشمیر میں منگلا ڈیم ودیگر چھوٹے چھوٹے بجلی پیدا کرنے کے یونٹس ہونے کے باوجود کشمیریوں سے پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ٹیرف کے مطابق بل وصول کیے جاتے ہیں۔ پورے آزاد کشمیر کو 200 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ آزاد کشمیر سے پانچ، چھ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی چوری کی شرح بھی سب سے کم ہے۔ یہاں کے 80 فیصد لوگ پورا بل ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں موجود ہے جہاں سے جو چیز پیدا ہوتی ہے پہلا حق وہاں کے لوگوں کا ہے لیکن کشمیریوں کو بھی لمبی لمبی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجلی کے بھاری بلوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ مہنگائی بیروزگاری اور بھاری یوٹیلیٹی بلز پورے پاکستان کے عوام کا مسئلہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاری یوٹیلیٹی بلز عوام کو کھائے جا رہے ہیں۔ عام آدمی کی کمائی کا زیادہ حصہ یوٹیلیٹی بلز میں چلا جاتا ہے جس میں بجلی گیس واٹر چارجز مہنگا فیول پراپرٹی ٹیکس کنزیومر چارجز ودیگر ٹیکس شامل ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج عام آدمی اپنی کمائی کا اتنا حصہ اپنے بچوں پر خرچ نہیں کر رہا جتنا وہ بلز کی صورت میں ادا کر رہا ہے جو کہ عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہو رہا ہے۔ ہماری حکومتیں اور ادارے اس وقت معاملات کا نوٹس لیتے ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر میں آٹے اور بجلی کے حوالے سے پچھلے سال سے احتجاج ہو رہا تھا۔ چنگاری سلگ رہی تھی لیکن نہ ہی سیاسی حکومتی نمائندوں نے اسے سیریس لیا نہ انتظامیہ نے اس کا کوئی خاص نوٹس لیا اور نتیجہ ایک لاوے کی صورت میں سامنے آگیا۔
ہماری نفسیات ہے کہ ہم چیزوں کے مستقل حل کی بجائے ڈنگ ٹپاو کام کرتے ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس پر عوام میں پائی جانیوالی بیزاری کو ہم سب لوگ محسوس کر رہے ہیں لیکن نہ عوام کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس کے کوئی مستقل حل کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔ آخر کب تک عوام یہ بوجھ برداشت کرتے رہیں گے۔ حکومت کو فوری طور پر عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ حکومت توانائی کے بحران کے حل کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے، کب تک عوام کو یہ حالات فیس کرنا پڑینگے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری نفسیات ہے کہ ہم تو چھوٹے موٹے احتجاج کو کسی کھاتے میں ہی نہیں لاتے۔ اور عوام کو اعتماد میں لینا تو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج کا ایک اور خطرناک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ عوام کی پولیس کیخلاف نفرت ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ اس کی اہم وجوہات یہ ہیں کہ ہم پولیس کو نہ صرف سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں بلکہ پولیس نے لوگوں کو ناجائز تنگ کرنا اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ میں نے آزاد کشمیر میں اپنے دوست سے بات کی تو اس نے بتایا کہ میری ہمشیرہ برطانیہ سے اپنی فیملی کے ہمراہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر اتری۔ وہاں سے وہ آزاد کشمیر آرہی تھی تو راستے میں دو جگہوں پر پولیس نے اسے اتنا زچ کیا کہ ایک جگہ پر وہ 5ہزار اور دوسری جگہ پر وہ تین ہزار روپے رشوت دے کر اپنے گھر پہنچی۔ پولیس کا یہ رویہ صرف آزاد کشمیر میں ہی نہیں پورے پاکستان میں ایک جیسا ہو چکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں پولیس کھلے عام لوٹ مار میں مصروف ہے اور کہیں چوری چھپے لوگوں کو تنگ کر کے لوٹا جاتا ہے۔ حکومتوں کو پولیس رویوں کے بارے میں سوچنا پڑیگا۔ پولیس کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت پر قابو نہ پایا تو عوامی لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور وہ کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے اب روائیتی طریقوں سے عوام کو دبا کر من مانی نہیں کی جا سکتی۔ اب عوام کے ایشوز کو ڈیل کرنا پڑے گا اور ڈیلیور کرنے کے سوا اب کوئی چارہ نہیں، اگّے تہاڈی مرضی۔
٭…٭…٭
کشمیر کا احتجاج، مسئلہ یوٹیلیٹی بلز یا کچھ اور؟
May 14, 2024