وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام کے ڈھانچے میں اصلاحات لانے اورمحصولات میں بہتری کیلئے ٹیکس نیٹ کا دائرہ کار وسیع کرنا ہو گا. 25 اور 26 فیصد شرح سود کے ساتھ انڈسٹری کا فروغ ممکن نہیں۔ پاکستان کی معیشت کو پٹری پر لانے کا واحد راستہ ڈیجیٹلائزیشن ہے، ’’مک انسے ‘‘ کو پورے ٹیکس ایکو سسٹم کو ڈیجیٹلائز کرنے کا کام سونپا گیا ہے اور ایف بی آر میں سے عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے تاجر برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ جو تاجر برادری ٹیکس نیٹ سے باہر ہے انہیں بھی ٹیکس دہندگان کی فہرست میں لانا ہو گا اور اس حوالے سے تاجر برادری کی طرف سے دی گئی تجاویز قابل ستائش ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کیا جائیگا۔
بے شک اس وقت معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ ٹیکس نیٹ بڑھا کر ہی معیشت میں استحکام لایا جا سکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ زور زبردستی کے بجائے معاملہ فہمی سے کام لیا جائے۔ ایسے وقت میں پاکستان کسی بھی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا جس وقت وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں جبکہ سعودی عرب تو پاکستان میں سرمایہ کاری کا آغاز کر بھی چکا ہے۔ جس پر ٹیکس واجب الادا ہے‘ اسے ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے۔ مگر نان فائلرز کی سمیں بند کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ سم بند کرنے سے ای کامرس اینڈ ٹرانزیکشنز کا عمل بری طرح متاثر ہوگا جو معیشت میں بہتری لانے والے اقدامات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں کی موبائل سمیں بلاک کرنے کی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی تجویز پہلے ہی ناقابلِ عمل قرار دے چکا ہے۔ اس لئے اس فیصلے سے رجوع کرکے کوئی بہتر لائحہ عمل طے کیا جائے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ جو طبقہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہا ہے، بالخصوص تنخواہ دار طبقے کی تو تنخواہ ہی ٹیکس منہا کر لیا جاتا ہے جبکہ ایف بی آر کی طرف سے اسی طبقے پر دبائو ڈالا جارہا ہے۔ عام آدمی ماچس کی ڈبی خریدنے پر بھی ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہے جبکہ بڑے مگرمچھ نہ ٹیکس دیتے ہیں اور نہ انھیں ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ یہ بااثر طبقہ اتنا طاقتور ہے کہ اسکے سامنے ایف بی آر جیسا ادارہ بھی بے بس ہے اور تمام قوانین بھی۔ عالمی اداروں کی رپورٹیں ریکارڈ پر ہیں کہ سسٹم چلانے کیلئے پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقہ ہی ادا کرتا ہے۔ ایف بی آر کے پاس ایسے تمام افراد کا ڈیٹا موجود ہوتا ہے جو ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ بہتر ہے کہ ایف بی آر ٹیکس نظام کو بہتر بنا کر انکے گرد گھیرا تنگ کرے۔
تنظیموں کی یہ پالیسی سانپ کو دودھ پلانے کے مترادف ہی ہوگی۔