آزاد جموں و کشمیر میں جاری کشیدہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے خصوصی اجلاس میں کشمیری عوام کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے 23 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اجلاس کے دوران کشمیر میں جاری صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے بعد فوری طور پر آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کردی گئی۔ آزاد جموں و کشمیر محکمہ توانائی نے بجلی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے تحت گھریلو استعمال کی بجلی کے لیے ایک سے 100 یونٹ تک بجلی کی قیمت 3 روپے فی یونٹ ہوگی۔ 101 سے 300 یونٹ تک 5 روپے جبکہ 300 سے زیادہ یونٹس کے استعمال پر 6 روپے فی یونٹ ہو گی۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق، کمرشل استعمال پر 300 یونٹ استعمال پر بجلی کی فی یونٹ قیمت 10 روپے ہو گی۔ 300 سے زائد یونٹس کے استعمال پر فی یونٹ بجلی کی قیمت 15 روپے ہوگی۔ اسی طرح، آٹے کی قیمت میں بھی گیارہ سو روپے فی من کمی کی گئی ہے جس کے بعد چالیس کلوگرام آٹے کا تھیلا 3100 روپے سے کم ہو کر 2000 روپے کا ہوگیا ہے۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والے خصوصی اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق، آزادکشمیرکے وزراء اور اعلیٰ سیاسی قیادت نے شرکت کی جبکہ وفاقی وزراء اور اتحادی جماعتوں کے زعماء بھی اجلاس میں شریک تھے۔ اجلاس کے بعد وزیراعظم آزادکشمیر نے اپنی کابینہ ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سستی بجلی اور سستی روٹی کے مطالبات کو کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا، وزیراعظم پاکستان نے معاشی مشکلات اور تحفظات کے باوجود فوری طور پر بجلی اور گندم پر سبسڈی کے نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ معاملات کو حل کرنے کے لیے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
قبل ازیں، اتوار کو کشمیر میں کشیدہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہباز شریف نے تمام فریقوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے مطالبات کے حل کے لیے پرامن لائحہ عمل اختیار کریں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بحث و مباحثہ اور پرامن احتجاج جمہوریت کی خوبصورتی ہیں لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی رابطے کے ذریعے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں شہباز شریف نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے افراتفری اور اختلاف رائے کے صورتحال میں ہمیشہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو فوری سیاسی پوائنٹ سکورنگ شروع کر دیتے ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بھی بات کی اور خطے میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے تمام عہدیداروں کو ہدایت کی کہ وہ ایکشن کمیٹی کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر پرامن حل تلاش کریں۔
یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں مہنگائی کے خلاف ہونے والے مظاہرے پر تشدد رخ اختیار کرگئے اور اس دوران میرپور میں جمعے کی شام سب انسپکٹر عدنان قریشی شہید کردیے گئے۔ اس واقعے نے ان مظاہروں میں تشدد کے عنصر کو مزید ہو ا دی۔ اگر حالات و واقعات اور ان مظاہروں کے پیچھے چھپے محرکات کا احاطہ کیا جائے تو حالات کی پیچیدگی واضح ہوتی ہے۔ ان مظاہروں کے دوران دیکھی جانے والی تشدد کی کارروائیاں ایک لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ اس طرح کے سخت اور پر تشدد مظاہرے کسی صورت بھی مسائل کا حل نہیں اور اگر ان مظاہروں کے دوران انسانی جانوں کا ضیاع دیکھنے میں آئے تو یہ عنصر احتجاج کے قانونی اور اخلاقی جواز کو یقینا مشکوک بنا دیتا ہے۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے نے اس احتجاج کی شدت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ احتجاج بنیادی طور پر ریاست کے خلاف ہورہا ہے اور اسے زبردست عوامی تائید حاصل ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس تاثر کو ہوا دینے والے عناصر وہی ہیں جنھوں نے 9 مئی کے واقعات کے لیے بھی سوشل میڈیا کا منفی استعمال کر کے ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اگر 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے مقدمات کے فیصلے کر کے ان میں ملوث افراد کو سزا دیدی جاتی تو نئی پیدا ہونے والی صورتحال اتنی نقصان دہ نہ ہوتی جتنی کہ یہ بن گئی، اور اس صورتحال سے بھارت نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اسی لیے سوشل میڈیا پر جن اکاؤنٹس کے ذریعے بڑی تعداد میں اس واقعے کو منفی رنگ دے کر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف پوسٹیں کی گئیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح بھارت سے ہی ہے۔ لیکن ہمارے اپنے ملک میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دشمن کے آلہ کار بن رہے ہیں، لہٰذا اس بات کی چھان بین ضرور ہونی چاہیے کہ پاکستان میں ایسے کون سے عناصر موجود ہیں جو اپنے ملک کو نقصان اور دشمن کو فائدہ پہنچانے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مہنگی بجلی اور مہنگے آٹے سے متعلق احتجاج اور غم و غصے کا جو سلسلہ ہمیں آزاد جموں و کشمیر کے مختلف شہروں میں دیکھنے کو ملا وہ پوری طرح ناجائز نہیں ہے اور یہ مسئلہ صرف کشمیری عوام کا نہیں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں بسنے والے ہر عام آدمی کا ہے۔ حکومت نے کئی دن ضائع کر کے اور اس مسئلے کو بہت زیادہ الجھا کر جو فیصلے کیے، یہ چند روز پہلے بھی ہوسکتے تھے۔ مزید یہ کہ پورے ملک میں عوام مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے ہیں اور مختلف مواقع پر کئی شہروں میں اس کے خلاف عوام نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔ حکومت کو کشمیر میں پیش آنے والے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک بھر میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے فوری کوششیں کرنی چاہئیں اور اس سلسلے میں کسی احتجاجی سلسلے کے شروع ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
آزاد کشمیر: مذاکرات کامیاب، بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان
May 14, 2024