آزاد کشمیر کی حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات مان لیے ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے آزاد کشمیر کے لیے تیئیس ارب روپے فوری طور پر جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ آزاد جموں کشمیر میں انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی گئی ہے۔
حکومت آزادکشمیر نے آٹے کی قیمت میں کمی اور بجلی کے نئے نرخ کے نوٹیفکیشن بھی جاری کیے ہیں۔آٹے کی فی من قیمت دو ہزار روپے مقرر کی گئی ہے اور بیس کلو آٹے کی قیمت ایک ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے چوہدری انوار الحق نے اس فیصلے کو "کشمیریوں کے ساتھ لازوال محبت قرار دیتے ہوئے بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی کو چیلنج کیا ہے کہ وہ بھارت میں اتنی سستی بجلی دے کر دکھائے۔ سستی روٹی، سستی بجلی کے مطالبات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، پہلے 3100 روپے فی من آٹے کا نرخ تھا، آٹے کا اب فی من نرخ 2000 روپے مقررکیا گیا ہے، بجلی کے ایک سے 100 یونٹ تک کے نرخ 3 روپے، 100 سے 300 یونٹ کے 6 روپے ہوں گے، سبسڈی سے 23 ارب روپیکا بوجھ پڑے گا جسے حکومت پاکستان نے خوش دلی سے قبول کیا۔"
کشمیریوں نے احتجاج کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے ہیں، حکومت کے لیے سب سے اہم معاشی اصلاحات ہیں۔ حکومت کو جلد از جلد معاشی اصلاحات کی طرف بڑھنا ہو گا۔ کروڑوں لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ان سینکڑوں لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہو گا جو دہائیوں سے اس ملک کے وسائل کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کشمیر میں پائی جانے والی بیچینی اور مظاہروں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہو سکتا ہے اس حوالے سے انکار ممکن نہیں لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم خود کیا کر رہے ہیں، ہم کب تک بیرونی ہاتھ پر ملبہ ڈالتے رہیں گے، ہماری بھی کوئی ذمہ داری ہے، کیا ہم یہ نہیں سمجھتے کہ بھارت ان واقعات کو دنیا میں کیسے استعمال کر سکتا ہے، بھارت ان واقعات کو بنیاد بنا کر دنیا میں جھوٹ پھیلا سکتا ہے، ایسے مظاہرے دنیا کے ہر دوسرے ملک میں ہوتے ہیں لیکن جب یہ مظاہرے آزاد کشمیر میں ہوں گے تو بھارت نے جھوٹ کے کارخانے اس انداز میں چلانے ہیں کہ دنیا سچ سمجھا شروع ہو جائے گی۔ اس لیے ہمیں یہ ہر حال میں دیکھنا ہے کہ بیرونی ہاتھ کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس کریں، لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کریں، حالات اس نہج پر کیوں پہنچیں کہ شہریوں کو مظاہرے کرنا پڑیں۔
خبر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بہت ساتھ دیا ہے، سعودی عرب نے ہر محاذ پر پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے مختلف معاملات میں دیرینہ دوستی، تعلقات اور دینی رشتے کو ترجیح دی ہے۔ یاد رہے کہ یہ تعلق، دوستی اور محبت یکطرفہ ہرگز نہیں ہے پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہوئے بہت سے اہم ممالک کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ کھڑے رہنے کو ترجیح دی ہے۔ ماضی میں جب کبھی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑی ہے دونوں نے غیر مشروط طور پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ گذرے چند برسوں میں پاکستان کو معاشی حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے اور اس دوران سعودی عرب نے ہر ممکن طریقے سے پاکستان کی مدد کرنے اور ہمیں مشکلات سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان کو معاشی مسائل کا سامنا ہے، پاکستان ایک مرتبہ پھر سعودی عرب سے تعاون کی امید رکھتا ہے۔ اس مرتبہ تجارت کو اہمیت دی جا رہی یے، قرض کے معاملے میں بھی سعودی عرب پاکستان کی مدد کرتا ہے لیکن معاشی مسائل کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے تجارت اور کاروباری سرگرمیوں پر زور دیا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو تجارتی و معاشی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو مضبوط بنا کر برادرانہ تعلقات کو کاروباری تعلقات میں بدلا جائے اور دونوں ملکوں کے مابین دیرینہ روابط کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اس حوالے سے کافی سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے، موجودہ حکومت بھی قرض کے بجائے تجارت کو فروغ دینے، معیشت کو مضبوط کرنے اور معاشی مسائل حل کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ کاروباری و تجارتی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز چاہتی ہے۔ اس وقت کی وفاقی کابینہ میں کئی ایسے لوگ ہیں جو کاروباری و تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے حوالے سے بہت اچھی سوچ رکھتے ہیں، وہ ناصرف سرمایہ کاری بلکہ کامیاب تجارتی و کاروباری پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ ان میں ایک نام وفاقی وزیر عبدالعلیم خان کا بھی ہے۔ وفاقی کابینہ میں ایسی شخصیات کی موجودگی سے تجارت اور کاروبار کے ذریعے معاشی مسائل کا حل اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کی سوچ حکومت کو ہر وقت بہتر کام کے لیے متحرک رکھتی ہے۔ پاکستان میں ان دنوں خسارے میں رہنے والے اداروں کی نجکاری پر بھی کام ہو رہا ہے، بنیادی طور پر تو ملک کو معاشی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، محصولات اور قرض کے معاملے میں سخت فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک معاشی اصلاحات نہیں ہوں گی، آمدن و اخراجات میں توازن قائم نہیں ہو گا، جب تک ملک کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض کی حکمت عملی سے نہیں نکالا جائے گا اس وقت تک مسائل حل نہیں ہو سکتے، مختلف وقتوں میں قرض لے کر وقت تو گذارا جا سکتا ہے لیکن مسائل حل نہیں ہو سکتے بلکہ مسائل گھمبیر ہوتے چلے جائیں گے۔ اب حکومت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی منتظر ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی تاریخوں پر مشاورت جاری ہے اور ابھی تک کسی حتمی تاریخ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے حکام دورے کی تاریخ پر مشاورت کررہے ہیں جب کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار میں سعودی حکام سے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے سے متعلق مسلسل رابطے میں ہیں۔
وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ "اس وقت ہماری تمام توجہ معیشت کی بہتری پر ہے، معیشت کی بہتری کے لیے اصلاحات اور بنیادی نظام کی تبدیلی کے لیے پرعزم ہیں، مختلف شعبوں میں اصلاحات کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں ہم عالمی معاشی انقلاب لا سکتے ہیں۔کویت، قطر، یواے ای اور ترکیہ بھی آئی ٹی و سرمایہ کاری شعبوں میں پارٹنر بن سکتے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب خطے کی ترقی وخوشحالی میں شراکت دار ہیں۔ جدید آلات اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم زرعی پیدوار بڑھاسکتے ہیں، آئی ٹی کے شعبے میں سعودی عرب نے نمایاں خدمات انجام دیں، آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان سعودی عرب کے تجربات سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے، پاک سعودیہ مشترکہ تعاون سے نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں تربیت دیں گے، تربیت حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ہنرمند سعودی عرب میں کام کرسکیں گے۔ پاکستانی ہنر مند ریونیو پاکستان بھیجیں گے تو معیشت بہتر ہو گی۔ پاکستان کو اس وقت بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے، اس وقت ہماری تمام توجہ معیشت کی بہتری پر ہے، معیشت کی بہتری کے لیے اصلاحات اور بنیادی نظام کی تبدیلی کے لیے پرعزم ہیں، مختلف شعبوں میں اصلاحات کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔"
موجودہ حکومت پر معیشت سنبھالنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے نگراں حکومت کے معاشی فیصلوں اور اقدامات کو آگے بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مخلوط حکومت ہے اس لیے فیصلوں میں مشکلات ہو سکتی ہیں لیکن پاکستان کے بہتر مستقبل کی خاطر اب یہ وقت آ چکا ہے کہ سیاسی مفادات اور مصلحتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہماری قیادت کو دلیرانہ اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے، ان فیصلوں سے کن لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے یہ دیکھنا ضروری نہیں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کا فائدہ کس میں ہے۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر کہتے ہیں کہ "پاکستان سے مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے اور پاکستان کی سپورٹ جاری رکھیں گے۔ معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف جو تجاویز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ معاشی ٹیم کے ساتھ آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بھی کام کریں گے۔"
آئی ایم ایف سے مدد تو مل رہی ہے لیکن حکومت کو یہ طے کرنا ہے کہ آخر ہم کب تک قرض کے سہارے چل سکتے ہین۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس لگانے کی طرف جانے کے بجائے ہم خود کیوں نہیں سوچتے کہ ملک کے حق میں کیا بہتر ہے۔ یہاں ہم اس بحث میں الجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں جانا لیکن اس بحث میں کوئی نہیں جاتا کہ آئی ایم ایف اور قرض کے چنگل سے کیسے نکلنا ہے۔
آخر میں جون ایلیا کا کلام
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں
تم جس زمین پر ہو میں اْس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو
میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سْن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پْر کار ہی رہو
میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لْٹا کر مرے لیئے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو
جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغِ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں