کووڈ کی علامات فلو سے کس حد تک مختلف ہوتی ہیں؟

کورونا وائرس کی ایک نئی قسم پھر ابھر کر سامنے آ رہی ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ 4 برسوں سے زائد عرصے کے دوران اس بیماری کی علامات میں کس حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔


برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کے پی 2 نامی کووڈ کی نئی قسم کے کیسز مختلف ممالک میں دیکھنے میں آئے ہیں۔

درحقیقت مئی 2024 میں مختلف ممالک میں اس نئی قسم کے کیسز دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ دیکھنے میں آ رہے ہیں، مثال کے طور پر امریکا میں 28 فیصد کیسز کے پیچھے یہی نئی قسم ہے۔اس سے قبل 2024 کے شروع میں جے این 1 نامی قسم تیزی سے پھیل رہی تھی۔مگر مئی 2024 میں کووڈ 19 سے ہلاکتیں یا اسپتال میں داخلے کی شرح مئی 2023 کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق کووڈ 19 کی علامات کو فلو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور بیماری کی تشخیص پی سی آر ٹیسٹ کے بغیر ممکن نہیں۔انہوں نے بتایا کہ جب کووڈ وبا کا آغاز ہوا تو اس کی علامات کافی مختلف اور منفرد تھیں جیسے سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، شدید تھکاوٹ اور دیگر، مگر جیسے جیسے وائرس تبدیل ہوا، اس کی علامات فلو سے ملتی جلتی ہوگئی ہیں اور دونوں کے درمیان فرق کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ وائرس ارتقائی مراحل سے گزر کر کم خطرناک ہوچکا ہے مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقی صورتحال میں کچھ زیادہ فرق نہیں آیا۔لندن کالج یونیورسٹی کے مالیکیولر وائرلوجی کے شعبے کے پروفیسر گریگ ٹاورز نے بتایا کہ ضروری نہیں کہ وائرس کم خطرناک ہوگیا ہو، بلکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ اب ایسے افراد کو متاثر کر رہا ہو جن کا مدافعتی نظام اس وائرس کا سامنا پہلے بھی کر چکا ہو اور اب وہ اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔2024 میں اس حوالے سے متعدد عناصر کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کوئی فرد کتنی بار وائرس سے متاثر ہوا، اس نے کونسی ویکسین کا استعمال کیا اور ویکسینیشن سے بیماری کے خلاف پیدا ہونے والی مدافعت کس حد تک گھٹ جاتی ہے۔امریکا کی سٹی یونیورسٹی کے ماہر ڈینس نیش کے مطابق جن افراد کو اب پہلی بار کووڈ 19 کا سامنا ہو رہا ہے، ان کو زیادہ خطرات لاحق ہیں، خاص طور پر اس وقت جب بوسٹر ویکسین کو لگوائے کافی عرصہ ہو چکا ہو۔انہوں نے کہا کہ اب بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو 4 برسوں کے دوران کووڈ سے محفوظ رہے، تو ان میں اس بیماری کی سنگین علامات کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔دوسری جانب کورونا وائرس بھی مسلسل خود کو تبدیل کر رہا ہے اور انسانی جسم پر حملہ آور ہونے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔اومیکرون کی دیگر اقسام کے مقابلے میں جے این 1 قسم نے مدافعتی نظام پر حملہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس سے متاثر ہونے پر انسانی جسم پر مرتب اثرات بھی تبدیل ہوئے۔2023 میں ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسین ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کی وبا کے ابتدائی مراحل کے مقابلے میں اب اومیکرون کی مختلف اقسام سے متاثر ہونے والے محض 6 سے 7 فیصد افراد کو سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے۔Exeter یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ اسٹرین نے بتایا کہ اب جے این 1 یا ای جی 5 اقسام سے متاثر ہونے والے کووڈ کے مریضوں میں ہیضے یا سر درد جیسی علامات زیادہ عام ہوتی ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ وائرس کی جانب سے خلیات کو متاثر کرنے کا عمل نمایاں حد تک تبدیل ہوا ہے، دنیا بھر میں لگ بھگ سب ہی اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں یا ویکسینیشن کراچکے ہیں، تو اب وائرس کو پھیلنے کے لیے مدافعتی ردعمل سے بچنا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا اسپائیک پروٹین بہت زیادہ بدلا ہے اور اب وہ جسم میں داخلے کے لیے مختلف خلیات کو متاثر کرتا ہے، جس کے باعث سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کا سامنا نہیں ہوتا۔محققین کی جانب سے کورونا وائرس کی مختلف اقسام کے اندرونی افعال کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے یا یہ دیکھا جا رہا ہے کہ نئی اقسام کس حد تک مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔یہ وائرس اب بھی خون کی شریانوں اور اندرونی اعضا کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر گردوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ڈیوڈ اسٹرین کے مطابق گردوں میں خون کی لاکھوں ننھی شریانیں ہوتی ہیں اور ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ جے این 1 قسم سے گردوں کے افعال میں کسی حد تک تبدیلی آتی ہے جس کے باعث یہ ماضی کی دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا وائرس کی نئی قسم سے ہو رہا ہے یا اس وجہ سے کہ بیشتر افراد نے ڈیڑھ سے 2 سال کے درمیان ویکسین کی اضافی خوراک استعمال نہیں کی۔یہ وائرس جسم کے اندر خون کے مائیکرو کلاٹ کا باعث بنتا ہے اور شواہد کے مطابق اس سے لانگ کووڈ (بیماری کی علامات کا دورانیہ کئی ماہ یا سال تک برقرار رہنا) کا سامنا ہوتا ہے۔مگر اگست 2023 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ مائیکرو کلاٹ سے دماغی مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے جس کا تجربہ لانگ کووڈ کے بیشتر مریضوں کو ہوتا ہے اور محققین کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں کووڈ کے دائمی کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔امپرئیل کالج لندن کے پروفیسر ڈینی آلٹمین نے بتایا کہ 2020 کی تحقیقی رپورٹس میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ لانگ کووڈ کا خطرہ 10 فیصد مریضوں کو ہوتا ہے، مگر اب لانگ کووڈ کا خطرہ بظاہر گھٹ گیا ہے، جس کی وجہ صرف بیماری کی شدت میں کمی آنا نہیں بلکہ ویکسین سے حاصل ہونے والا تحفظ بھی ہے۔ڈیوڈ اسٹرین کے مطابق کورونا کی ہر قسم کے ساتھ علامات میں تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، ہم نے ایسی اقسام بھی دیکھی ہیں جن میں بیماری کی ابتدائی علامات سر درد تھی اور کچھ اقسام ایسی ہیں جن میں نظام ہاضمہ کے مسائل سب سے پہلے نظر آتے ہیں، زندگی معمول پر آ رہی ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کووڈ کا مسئلہ ختم ہونے والا نہیں

ای پیپر دی نیشن