جنرل ڈیوڈ پیٹر یاس کے معاشقے کے بعد جنرل ایلن کا سکینڈل بھی سامنے آگیا۔
ہمار امیڈیا پیٹر یاس کے عشق بارے جتنی تحقیق کریگا تو نئے انکشافات ہوتے رہیں گے یہ خبر پڑھ کر کچھ تو یوں گویا ہوتے ہیں....
گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی
جناب امریکہ اور بالخصوص مغربی معاشرے میں یہ معاشقے عام بات ہیں، لہٰذا امریکی بابِ عشق کو بند ہی رہنے دیں جس طرح انگریزی کی گالی بمقابلہ پنجابی کی گالی کے سامنے بالکل پھیکی اور بے ذائقہ ہوتی ہے وہ آدمی اپنے آپ کو بھی دے سکتا ہے۔
ایسے ہی انگریزی پیار اور عشق بھی ہیر رانجھا اور سسی پنو کے مقابلے میں بدمزا ہوتا ہے لہٰذا ہمارے احباب اس عشق کو اپنے عشق پیار پر قیاس مت کریں،پیٹر یاس کی رسوائی بہت ہوئی کیونکہ وہ دنیا کے سامنے امریکی معاشرے کی تو ”کریم“ تھے،کلنٹن بھی اسی بنا پر تیز میڈیا کا نشانہ بنے تھے، خیر تب تو پاکستان میںالیکٹرانک میڈیا ابھی پیدا نہیں ہوا تھا ورنہ کلنٹن کا حال اس سے بھی بُرا ہونا تھا بہر حال جنرل ایلن کی قربانی بھی عنقریب جائز جائیگی کیونکہ پینٹا گون اس سے تفتیش شروع کرچکا ہے ایک جائے تو کوئی نیا آجائیگا....
ایسے ہی نظام دنیا چلنا ہے
” چلے بھی جاﺅ کہ گلشن کا کاروبار چلے “
٭....٭....٭....٭....٭
تیسری شادی کی اجازت نہ ملنے پر سنگدل شوہر نے 5سالہ بیٹی قتل کردی۔
ایسے افراد باپ کہلانے کے مستحق نہیں بلکہ یہ وحشی اور درندے ہیں،5سالہ پھول جیسی بچی کو چھریوں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتارنے والے درندے کو ایسی سزا دی جائے کہ وہ سب کیلئے نشانہ عبرت ہو، ایسے افراد کی رگ رگ میں نفرت بھری ہوتی ہے۔
شیطان صفت کو کون سمجھاتا کہ معصومہ نے تو آپ کو تیسری شادی سے نہیں روکا اس درندے کے عمل کو پنجاب میں یوں ہی کہا جاسکتا ہے....
” ڈکّا کھوتے توں تے غصہ کمہارتے“
شہابی آنکھوں اور گلابی گالوں والی 5سالہ معصوم تو یقینا جنت میں چلی گئی تو اس قاتل باپ کو اب ساری زندگی راتوں کو بھی سکون میسر نہیں آئیگا، بس معصومہ کی چیخیں رات کی نیند حرام کردیں گی اور بقیہ زندگی تڑپ اور کرب میں ہی گزارے گا،زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے والا ایک سنگدل رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹی کو زندہ درگور کرنیکا سارا واقعہ آپ کو سنایا جب اس مقام تک پہنچا کہ گڑھا کھود رہا تھا تو معصومہ اپنے دوپٹے سے میرا پسینہ صاف کرتی اور پھر اس کی چیخ و پکار کو چھوڑ کر اس پر مٹی ڈال دی تو آپ کی آنکھیں آنسوﺅں سے تر ہوچکی تھیں آپ نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیٹی کی پرورش کی اسے تعلیم دلوائی اور پھر اسے خوشی سے رخصت کیا تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
کراچی میں روزانہ 2500 نفسیاتی مریض معالجین سے رجوع کرتے ہیں‘ رپورٹ۔
ڈیڑھ کروڑ کی آبادی سولی پر لٹکی ہوئی ہے‘ گھروں میں قید ہیں۔ دائیں بائیں دیواریں ہی نظر آتی ہیں۔ اسی بنا پر عوام نفسیاتی مریض بن چکے ہیں‘ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ غالب نے بھی کہا تھا۔
موت کا ایک دن معین ہے
چاہیے اکڑوں ہی بیٹھ کر آئے
لیکن اندھی موت سے تو ہر کوئی پناہ مانگتا ہے۔ اب تو نماز جنازہ پر بھی فائرنگ ہونا شروع ہو چکی ہے دہشت گرد کہتے ہیں کہ اپنے پیاروں کو دفن بھی مت کرو۔
یا ظالم نوں ظلم تو روکو
یا پالو حکمرانوں چوڑیاں
مدارس کے نہتے طلبا‘ عوام‘ معصوم بچے مولی گاجر کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ وزیراعلیٰ بھی سائیں لوگ ہیں کہتے ہیں گذشتہ روز صرف ایک ٹارگٹ کلنگ ہوئی‘ تو جناب 12 لاشیں کہاں سے گریں‘ دفعہ 144 نافذ ڈبل سواری پر پابندی‘ اسکے باوجود عوام غیر محفوظ ہیں۔ کراچی میں تو ڈاکٹر بھی نہیں مل رہے‘ نفسانفسی کا عالم ہے‘ وہاں صرف دہشت گردوں کا راج ہے‘ اب تو رینجرز پر بھی فائرنگ کی خبریں آرہی ہیں‘ عوام اپنی حفاظت کیلئے جنہیں صدائے دیتے ہیں وہ خود ہی غیر محفوظ ہیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
محکمہ خوراک کی غفلت سے 5 سال میں 50 کروڑ کی گندم چوری یا ضائع ہو گئی۔
ہمارے ہاں یہ مذموم رسم ہے کہ کھانا، فروٹ پڑے پڑے خراب ہو جائے گا، لیکن وہ کسی غریب یا اپنے ملازم کو نہیں دینا، کیونکہ دوسرے کا بھرا پیٹ دیکھ کر ہم خوش نہیں ہوتے، لاہور میں ہزاروں افراد بھوکے پیاسے فٹ پاتھوں اور درباروں پر پڑے ہیں، سیلاب متاثرین روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ لیکن محکمہ خوراک کے ارباب بست و کشاد نے 50 کروڑ کی گندم ضائع کر دی لیکن غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔ اگر یہی گندم غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی، تو آج معصوم بچے بیچ کر عوام اپنا پیٹ نہ بھر رہے ہوتے، بیورو کریسی کتنی ظالم ہے یہ سیاستدانوں کو انگلیوں پر ایسے نچاتی ہے جیسے کوئی مداری اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یقینی طور پر وزیراعلیٰ پنجاب کو محکمہ خوراک کی اس ہٹ دھرمی کا پتہ نہیں ہو گا، ورنہ وہ ان کے ایسے ہی ہوش اڑاتے جیسے عربی شاعر امر القیس نے عنیزہ کے اڑائے تھے اب کوئی چڑیا ہمیں بھی خبر لا دے کہ 50 کروڑ کی گندم کہاں گئی ہے؟ کِس کِس نے اس سے پیٹ بھرا؟ مولوی اسماعیل میرٹھی نے کہا تھا....
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلّت کے حلوے سے بہتر
اسی لئے بیورو کریسی نے ”ویہلے“ رہ کر ہی پیٹ بھرنے کو عافیت سمجھی۔