سنتے آئے تھے کہ چور کو نہیں چور کی ماں کو پکڑو مگر ہمارے ہاں جب سے نئے نئے قوانین جاری ہونے لگے ہیں۔ چور کی ماں کو تو آزاد کر دیا گیا ہے۔ جا بھئی تو اگلے گھر۔ وہاں لوٹ مار کر لے۔ یہاں ہم چور سے نپٹ لیتے ہیں۔ پھر چور سے جو نپٹا جاتا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں پتنگ بازی پر پابندی لگائی گئی.... آسمان پر پتنگیں اکثر اتوار اور ایسی چھتیوں میں نظر آتی ہیں۔ یعنی چور کی ماں اپنے کام کر رہی ہیں۔ پہلا چور تھانے کی مار پیٹ کے بعد چھوڑ دیا گیا ہے یا پولیس کی جیب گرم کرنے بعد صرف ورکنگ سے کام چلا لیا گیا ہے۔ چور کی ماں محفوظ ہے اور اپنے کام کر رہی ہے کہ پولیس کی جیب میں پیسے آتے رہیں۔
اخباروں میں خبریں لگتی رہیں کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی.... آئے دن موٹر سائیکلوں پر باپ بھائی کے آگے پیچھے بیٹھے بچے ڈور پھرنے سے زخمی ہوتے ہیں۔ شیشہ پلائی ڈور ان کے گلے پر پھر جاتی ہے اور جنازے والدین کے حوالے کر دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک دوسرے کو تنگ کرنے، دکھ دینے کا رواج پتہ نہیں کب وارد ہوا کہ پتنگ بنانے والوں نے بھی ایک نیا طریقہ نکال لیا۔ ڈور پہلے بھی بنتی تھی۔ کسی بھی سڑک کے کنارے دھاگے کو کھونٹیوں پر لگائے ایک آدمی ٹاکی ہاتھ میں پکڑے اس دھاگے پر رنگ دار گوند لگایا کرتا تھا۔ اپنے سکول جاتے بارہا اس دھاگے کو ہاتھ بھی لگا کر دیکھا تھا۔ اور وہ جو گوند والا تھا اسکی ڈھاری پر ہمیشہ ترس آیا۔ بیچارہ کتنی محنت کرتا ہے۔ گزوں تک کھونٹیوں پر لگے دھاگے پر گوند والی ٹاکی مارنے میں اسے صبح و شام ہو جاتی تھی۔ جانے وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتا۔ سگریٹ پیتا اور سامان سمیٹ گھر چلا جاتا۔ اسے اس مشقت کی کتنی دہاڑی ملتی تھی کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ مگر سوچنا پڑتا ہے کہ جو دھاگے پر مانجھا لگاتے ہیں اب تو انکی دہاڑی بہت بڑھ گئی ہے.... کہ اب گوند میں شیشہ باریک پیس کر ملایا جاتا ہے کہ ڈور کی دھار مخالف کی پتنگ ہی نہ کاٹے بلکہ راہگیروں کے گلے بھی کاٹ ڈالے۔
اس کی زد میں موٹر سائیکل سائیکلوں پر اگلی سیٹ پر بیٹھے بچے زیادہ آتے ہیں اور آئے دن گھروں میں صف ماتم بچھتی ہے۔ پتنگ والوں کو مائیں بہنیں جھولیاں اٹھا اٹھا کر بددعائیں دیتی ہیں۔ مگر یہ دعائیں ان تک پہنچ نہیں پاتیں کہ ڈور بنانے والا محفوظ رہتا ہے۔ پہلے کبھی کسی تپنگ کو کٹ کر ڈولتے ہوئے فضا زمین کی طرف آتا دیکھتے تھے تو بچوں کو اس کی سمت بھاگتے اور آپس میں گھتم گھتا ہوتے دیکھ کر دکھ نہیں ہوتا تھا کہ یہ کھیل ہے۔ مگر اب آسمان پر جونہی پتنگ نظر آتی ہے تو سوچنا پڑتا ہے کہ کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا....
پھر اخبار میں خبر آتی ہے کالج جاتے ہوئے دو جوان گلے پر ڈور پھرنے سے زخمی، راہگیروں نے ہسپتال پہنچایا۔ ایک کی حالت نازک ہے۔ موٹر سائیکل پر سکول جاتی بچی کے گلے پر ڈور پھرسے لہو لہان ہو کر باپ کی گود میں دم توڑ گئی.... ایک لڑکا پکڑ لیا گیا۔ یہاں بھی اڑانے والا تو پکڑا گیا۔ مگر چور کی ماں پر ہاتھ کسی نے نہیں ڈالا۔ حالانکہ صاحب اقتدار کو پہلے ڈور والے دکانداروں کو پکڑنا چاہئے۔ سڑک پر مانجھا لگانے والے آج تک پکڑے نہیں گئے۔ بچہ ہمیشہ آگے کی طرف لپکتا ہے۔ ہم چولہے کے اردگرد رکاوٹ کھڑی کر لیتے ہیں کہ بچہ ادھڑ آنے نہ پائے.... اس لئے میری ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ڈور پر شیشہ راتوں کو نہیں لگایا جاتا۔ دھوپ کے دنوں میں سرعام سڑکوں کے کنارے میدانوں کی دیواروں کے ساتھ کیل ٹھونک کر یہ کام کیا جاتا ہے۔ پابندی لگانا ہے تو انہیں پکڑیں۔ دکانداروں کو پکڑیں جن کی الماریاں ان ریلوں سے بھری ہوتی ہیں۔ دکاندار بڑی ایمانداری سے گاہک سے کہتا ہے اس پر کانچ کے دو کوٹ ہوئے ہیں۔ یہ ایک کوٹ والی ہے۔ اور دو کوٹ والی الماری کے پیچھے رکھی ہوئی ہیں کہ بیچنے پر پابندی ہے۔ تو پھر یہ بنتی بھی ہیں، خریدی بھی جاتی ہیں۔ گلے بھی کٹتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے اعلیٰ حکام وہاں پہنچ گئے مگر اعلیٰ حکام کرنے والا کام نہیں کرتے۔ ابھی تک میں نے کبھی یہ خبر نہیں پڑھی کہ ڈور کو شیشہ لگانے والے کتنے مجرم جیل پہنچا دیے گئے ہیں۔
ہمارے حکام اپنے حکم نامے میں یہ دوسطری حکم کیوں نہیں لکھتے کہ شیشہ لگانے والے شیشہ بیچنے والے ڈور لگانے والے فوراً پکڑ لئے جائیں.... آپ کاروبار کرنے والوں کو تو کھلی چھٹی دے دیتے ہیں۔ پتنگ اڑانے والوں کو پکڑ لیتے ہیں.... کیوں؟ سب سے پہلے سزا ان حکام کو ملنی چاہئے جو غلط کام ہوتا ہوا دیکھتے ہیں اور اسی وقت ایکشن نہیں لیتے۔ یہ بعد میں واویلا کرنے کا فائدہ....؟