تحریر: خواجہ نور الزمان اویسی
آذر بائیجان کے دارالحکومت ( باکو)پہنچنے پر اپنے ساتھی محمد سعید پاکستانی کے ساتھ سمگاہٹ کی مسجد میںنمازِ جمعہ ادا کی اور خطیب مسجد سے ملا قات میں حضرت خواجہ اویس کرنی کے مزار کے متعلق معلو مات حاصل کیں۔ اس طرح ٹیکسی کے ذریعے سفر پرروانہ ہوئے اورچالیس منات یعنی 130x40::5200) ) 52 سو روپے کرایہ طے ہوا۔ 300 کلو میٹر کا سفر الحمدللہ آرام کے ساتھ گزر گیا۔ سٹرک کے کنارے پھل کی دوکانیں بھی نظر آئیں اس دوران ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ الغرض دیہات سے گزرے تو کچھ نہریں بھی راستے میں آئیں اور ایک جگہ مکئی کے سٹے بھی دستیاب تھے ۔ آغدش مین روڈ پر واقع ہے جہاں سے کچھ فاصلے پر براستہ لیکی ایک سڑک دیہی علاقوں کو جاتی ہے ۔ تقریباََ 35 کلو میٹر کے فاصلے پر کنافلی علاقہ میں ایک بورڈ لگا ہوا ہے جس پر اویس بابا لکھا ہے۔ اس زرعی علاقے میں ہر طرح کے پھل دار درخت تھے،مقامی افراد پینٹ شرٹ میں گائے بھیڑ بکریا ں چرا رہے تھے ۔
مزار شریف قبرستان کے اندر واقع ہے۔ جہاںگاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہ ہے ۔ پانی پینے اور وضو کے لئے بھی اہتمام ہے اور ایک طرف لنگر خانہ بھی ہے۔ گروپ کی صورت میں زائرین دنبہ یا بکرا ساتھ لے آتے ہیں جسے وہ ذبح کرتے ہیں پکاتے ہیں خود بھی کھاتے ہیں اور تقسیم بھی کرتے ہیں۔ ان زا ئرین میںترکی ، پاکستان ، تاجکستان ، جارجیا ، چیچنیا اور آذربائیجان سے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
مزار شریف پر ایک بزرگ خادم حاجی مظاہر صاحب اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ خدمت پر مامور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تقریباََ 600 سال سے یہ خاندان نسل در نسل ادھر موجود ہے۔مزار شریف قبرستان کے اندرقبروں کے درمیان واقع ہے جس کے ارد گرد چاردیواری بھی بنائی گئی ہے۔ زائرین کے لئے فاتحہ خوانی ، دعا و حاضری کے لئے چاروںا طراف قا لین بچھا ئے گئے ہیںجب کہ ایک طرف سردیوں کے بستر بھی پڑے ہیں جو یقیناََ سردیوں میں آنے والے زا ئرین کی ضرورت کے لئے رکھے گئے ہیں۔
”مزار شریف کے اوپر چھت نہیں ڈالی گئی ،،
خادم دربار شریف نے بتا یا کہ حضرت خواجہ اویس قرنیؓعرب سے تبلیغ ِ دین کے لئے تشریف لائے۔ مدتوں سے زائرین آپ کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ہیں ۔ آپ کے مزارات جہاں بھی ہیں وہاں وہاں مجھ خاکسار کو حاضری کی توفیق نصیب ہو رہی ہے ۔ آپ کے مزار کا ذکر متعدد کتابوں میں موجود ہے، مقامی لوگوں میں آپ کی ذات مبارک کے بارے میں انتہائی ادب اور عقیدت پائی جاتی ہے ۔ مسجد کے امام صاحب اور فیصل آباد کے رہنے والے ایک پاکستانی دوست سلیمان صا حب جو یہاں کنبے کے ساتھ مقیم ہیں نے حضرت کے مزار شریف کے بارے میں بہت سی تفصیلات مہیا کیں ۔ واپسی پر باکو ائرپورٹ پر بھی ایک پاکستانی دوست سے بھی ملاقات ہوئی جس نے اپنے میزبان کے ساتھ حضرت کے مزار پر حاضری دی ۔
عجب اتفاق ہے کہ آپ کا مزار مبارک آذربائیجان (باکو) دارلحکومت و ائر پورٹ سے تقریباََ 350 کلو میٹر ایک دیہاتی علاقے میں واقع ہے۔ جب کہ دوسرا مزار شریف شام کے دارالحکومت دمشق سے بھی تقریباََ 300 کلو میٹر دور ایک بڑے قصبے ” الرقعہ “ ریلوے اسٹیشن جنگِ حنین کے مقام کے قریب واقع ہے ۔جسے ایرانی حکومت نے خصوصی توجہ کے ساتھ عالیشان شکل و صورت دی ہے ۔
اسی طرح آپ کا تیسرا مزار مبارک ملک یمن کے دارلحکومت صنعا و ائرپورٹ سے حدیدہ اور تاریخی قصبہ زبید میں تقریباََ 300 کلو میٹر دور واقع ہے۔ دربار شریف کا گنبد سبز ہے، جب کہ مزار اور ملحقہ چھوٹی سی مسجد کی چار دیواری مکمل سفید ہے۔ اس کے دربان دو بھائی کئی نسلوں سے خدمت کر رہے ہیں ۔ اس طرح آپ کے پاکستان میں واقع مزار سیہون شریف اور حیدر آباد کے درمیان واقع ہے یہ جگہ بھی کراچی سے تقریباََ 200 کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ یہاں آپ کا مزار شریف اونچے ٹیلے پر بنا ہے جس کی 60 سے زائد سیڑھیاں ہیں ۔ مزار شریف کا اوپری حصہ یہاں بھی کھلے آسمان تلے ہے کئی لوگوں نے یہاں چھت ڈالنے کی کوشش کی لیکن ممکن نہ ہو سکا ، مزار شریف کاسیمنٹ سے بنا فرش شدید دھوپ میں بھی گرم نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ آپ کے مزار میں لگی ٹائیلیں اور اوپرڈالی گئی چادریں بھی گرم نہیں ہوتیں ۔
دربار شریف پر چند گھرو ں کی آبادی ہے ۔ آج سے تقریباََ دس پندرہ سال پہلے تک پانی کی شدید قلت تھی دور سے لانا پڑتا تھا اب پانی کا معقول انتظام ہو گیا ہے سڑک بھی دربار شریف تک پختہ بن چکی ہے۔ دربار شریف پر یہاں کے رہنے والے مدتوں سے خدمتگار کے فرائض ادا کرتے رہے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے ایک شخص جو کراچی سٹیل مل میں ملازمت کرتا تھا اسے خواب میں ملازمت چھوڑ کے ادھر حاضری دینے کی بشارت ہوئی ۔بالآخر اب وہ ادھر ہی کافی عرصہ سے رہ رہا ہے اور مزار شریف پر اپنے کافی پرانے حجرہ میں خدمت کیلئے مقیم ہے ۔