سلطاُن العاشقین حضرت علامہ مہر

رانا یوسف
 رہبرِشریعت مہر محمد خاں ہمدم نقشبندی کاذکر خیر اور ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے زندہ و جاویدہے ۔ لوگوں کے دلوںمیں ایسے بندگان خدا کی عقیدت نبی¿ پاک سے محبت کا فیضان ہے۔پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم 1916ءمیں ریاست پٹیالہ (ہندوستان) کے معروف شہر سنور کے ایک علمی اور روحانی گھرانے میںایک صوفی منش شخصیت جناب الہی بخش خاں کے ہاں پیدا ہوئے۔ والدین کی دعاﺅں، اساتذہ کرام کی تربیت اور مشائخ عظام کی فیضان نظر نے آپ کو سلطان العاشقین کے مقام پر فائز کر دیا۔ بفضل خدا وندی سیرت طیبہ اور تاریخ و فقہ کے ساتھ ساتھ اسلام کے دیگر اہم موضوعات پر نظم و نثر میں انتہائی مدلل کتب تحریر کر کے آپ معاصرین میں ہمدم تخلص سے مشہور ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے آبائی شہر سنور سے حاصل کی بعد ازاں حفظ قران کی تکمیل اور تجوید و قرات کی تعلیم کے لئے استاذالقراءجناب قاری حفیظ الدین پانی پتی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کے لئے پانی پت کا سفر اختیار کیا ۔ آپ نے سولہ برس کی عمر کو پہنچنے تک ابتدائی علوم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بہترین حافظ قرآن اور قاری خوش الحان ہونے کا اعزازبھی حاصل کر لیا ۔ ابتدائی تعلیم اور حفظ و تجوید سے فراغت کے بعد آپ علوم اسلامیہ و دینیہ کی تحصیل کے لئے مفتی اعظم ریاست پٹیالہ (ہندوستان) حضرت علامہ مولانا محبوب علی خاں کی خدمت میںحاضر ہوئے جہاں آپ نے شب و روز محنت کر کے فقہ، اصول فقہ، منطق، فلسفہ اور دیگر مروجہ علوم و فنون حاصل کئے۔ بعد ازاں آپ نے عالم اجل مولانا عبدالجلیل خاںصدرمدرس دارالعلوم عربیہ حنفیہ کریمیہ شہر جالندھر (ہندوستان ) سے شرح جامی ،ہدایہ ،مشکوٰة شریف اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم حاصل کی۔ علمی تشنگی ابھی باقی تھی جسے بجھانے کے لئے آپ نے ریاست پٹیالہ سے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری کی نگری لاہور کی طرف رخت سفر باندھا اوروہاں پہنچ کر دارالعلوم حزب الاحناف کے بانی قبلہ مفتی اعظم حضرت علامہ مولانا ابوالبرکات احمد شاہ قادری اشرفی کی خدمت اقدس میں حاضر ی دی اورروحانی سلسلہ عالیہ قادریہ مےں اجازت و سند خلافت بھی حاصل کی۔تصوف وسلوک کی روحانی منازل طے کرنے پر آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مرتضائیہ میں حضرت پیر طریقت شیخ کامل خواجہ مہر محمد صوبہ نے اجازت و خلافت سے نوازا۔
آپ ظاہری وباطنی علوم کی تکمیل کے بعدریاست نابھہ (ہندوستان) کے سرکاری طور پر مفتی مقرر ہوئے جہاں سے آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس منصب کے دوران آپ ریاست نابھہ میں اسلامی اور فقہی اعتبار سے تمام لوگوں کی نگاہوں کے مرکز تھے عوام الناس روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے آپ سے رجوع کرتے تھے۔ زندگی کی بڑی سے بڑی مصروفیت بھی آپ کے فرائض کی ادائیگی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی تھی۔ آپ نے اپنی خلوت و جلوت میں ہمیشہ اتباع رسول کا خاص خیال رکھا۔ آپ کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی کہ آپ کا کوئی بھی عمل سنت مصطفی کے خلاف نہ ہو ۔خانقاہی وسیاسی زندگی میں آپ کی امامت میںہزاروں لوگ فیض یاب ہوئے۔ آپ نے ملت کے تحفظ ا میںہر تحریک میں بیدار مغز مسلم قائدین کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔تحریک ختم نبوت 1953ءمیں آپ کا کردار صف اول کے قائدین میں کسی سے کم نہ تھا۔ اس دوران آپ کو قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔آپ اپنی زندگی کے آخری سانس تک وطن عزیز میں نظام مصطفی کے عملی نفاذ کے لئے جمعیت علماءپاکستان کی مساعی میں برابر کے شریک رہے۔
حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم کی زندگی کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو قرآن مجید، حضور نبی کریم کی ذات مبارکہ اور آپ کی آل پاک سے والہانہ محبت و عقیدت ہے۔ جو حضرت علامہ ہمدم کی زندگی کے ہر گوشے میں نظر آتی ہے۔شانِ حسین المعروف بہ شہید کربلا سمیت متعددکتب کے مصنف حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم عشق رسالت مآب اور خدمت اسلام میں اپنی زندگی کے مصروف ترین شب و روز گزار کر 14اور 15 رجب المرجب کی درمیانی شب بمطابق 28 اپریل 1983ء بروز جمعرات اپنے مرید خا ص پیر ذکاو¿الدےن ہمدمی کے گھر پر محفل میلاد مصطفی کے دوران اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کا عرس مبارک ہر سال اسوج کے آخری ہفتہ میں منعقد ہوتا ہے ۔ اس سال بوجہ ادای¿گی فریضہ حج پےر اقبال خاں رباّنی ہمدمی، آستانہ عالیہ ہمدم چھانگا مانگا میں آپ کاعرس 8 نومبر کو تا خیر سے منعقد ہوا ۔ جس میں اندرون و بیرون ملک سے کثیر تعداد میں علماءکرام، مشائخ عظام، سمیت مریدین شریک ہوئے ۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...