شیریں زادہ خدوخیل
رسول اکرم نے جب ہجرت فرمائی تو اس وقت مسلمانوں میں کاتبوں کی شدید کمی تھی۔ کتانی کے مطابق اس وقت مدینہ میں صرف چھ افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اس عہد میں اس شخص کو کامل کہا جاتا تھا جو کتابت، تیر اندازی اور پیراکی میں ماہر ہوا کرتا تھا۔ چونکہ رسول اکرم علم و قلم کے رشتہ سے آگاہ تھے، اس لیے آپ نے علم کے ساتھ ساتھ صحابہ کرامؓ کو املا سکھا نے کا ممکنہ حد تک انتظام و انصرام فرمایا۔ مسجد نبوی میں جب ”صفہ“ تعمیر کیا گیا تو وہاں آپ نے کتابت املا کی ذمہ داری عبادہؓ بن صامت کے سپرد کی جن کا شمار کاملین میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں نے اصحاب صفہؓ کو قرآن مجید پڑھایا اور کتابت سکھائی۔ اس طرح حضرت سیدنا عبداﷲ بن سعید بن العاصؓ جو زمانہ جاہلیت کے مشہور خوش نویس تھے، رسول اکرم نے انہیں بھی کتابت اور املا سکھانے پر مامور فرمایا تھا۔ اس طرح جنگ بدر میں چند اےک قیدی جو خوش نویس اور انشاءپردازی پر قدرت رکھتے تھے، آپ نے ان کی رہائی کے زر فدیہ کی یہ صورت قرار دی وہ دس دس مسلمان بچوں کو انشاءاملا کی تربیت دے کر رہائی حاصل کر سکتے ہیں۔
اس وقت زر فدیہ جو جنگ بدر کے لیے مقرر کیا گیا تھا، وہ سو اونٹ یا چار ہزار درہم تھا۔ یہ دیت کے برابر رقم تھی۔ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو فی طالب علم چار سو درہم یا دس اونٹ آتے ہیں۔ یہ کافی بڑی رقم بنتی ہے۔ جنگ بدر کے قیدیوں کا زمانہ¿ قیام اےک یا دو ماہ سے زیادہ نہ تھا۔ صرف اےک دو ماہ کے لیے اس قدر بھاری معاوضہ پر ملّعمین رکھنا ، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک علم کی کس قدر افادیت تھی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت کافی خراب اور خستہ تھی مگر آپ نے مال و زر کے بجائے خواندگی کو ترجیح دی ۔ دوسری طرف دین اور عقائد کے اختلاف نے آپ کو اس بات سے نہیں روکا کہ مشرکین کے پاس جو بھلائی ہے مسلمان اس سے محروم رہ جائیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے ذمہ صرف بچوں کو املا و انشاءکی تربیت دینا تھا۔ ابن سعدؓ نے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ املا سکھانا ہی فدیہ ٹھہرا تھا۔ (طبقات ابن سعد) کیو نکہ دیگر معلّمین کی مسلمانوں کے پاس کمی نہ تھی، نہ وہ ان کو مطلوب تھے۔ علاوہ ازیں تعلیم و تربیت کے لیے اےک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جب کہ املا و انشاءکے عمل کے لیے زیادہ مدت درکار نہیں ہوتی۔ گمان غالب ہے کہ مسلمانوں نے چند اےک کاملین کو اپنے ذہین ترین بچے سونپ دئیے ہوں گے جنہوں نے اس مختصر مدت میں املاو کتابت کی بنیادی تربیت حاصل کی ہو گی۔ ان قیدیوں سے فارغ التحصیل طلبہ میں حضرت زیدؓ بن ثابت اور حضرت معاذ ؓ بن جبل کے اسمائے گرامی خاص کر قابل ذکر ہیں جنہوں نے آگے جا کر علم و فضل میں بڑا مقام پایا۔
علم و قلم اےک دوسرے کے لیے لازم و ملزم تھے۔ رسول اکرم نے صفہ میں درس و تدریس کے ساتھ کتابت و املا کی تربیت کا اہتمام کر کے ان کو یک جان دو قالب کے مصداق پہلی مرتبہ یکجا کر دیا۔ اس کے بعد مسلمانوں میں کتابت علم کے تصور نے اتنی ترقی کی اور اسے اتنا ضروری قرار دیا گیا کہ معاویہ بن مردہ کے قول کے مطابق اسے عالم نہیں سمجھا جاتا تھا جو علم کو لکھتا نہیں تھا۔