واہگے اور خیر پور ہمارا مذاق اڑاتے رہیں گے!

واہگہ پر ہونے والا دہشت گردی کاالمناک واقعہ کئی گھرانوں کو اجاڑ گیا اورکئی گھروں کے باقی بچ جانے والوں کو زندہ لاش بنا گیا۔ اگرچہ دہشت گردی کا یہ واقعہ پاکستان یا دنیا میں اپنی نوعیت کا کوئی پہلا  واقعہ ہرگز نہیں تھا، لیکن پاک بھارت سرحدی علاقے جیسے انتہائی محفوظ مقام پر اس واقعے کا ہوناانوکھا ضرور تھا۔ واہگہ جہاں چپے چپے پر سیکیورٹی ناکے ہوں اور اہلکاروں کی بہتات بھی ہو، وہاں اِس طرح کا ہولناک اور ہلاکت خیز واقعہ نے ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اختیار کی گئی حکمت عملی اور سیکیورٹی منصوبہ بندی کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اِن میں سب سے اہم سوال تو یہی ہے کہ دہشت گردی کی یہ آگ کہاں تک پھیلے گی؟کون کون دہشت گردی کی اس آگ کا رزق بنے گا؟ دہشت گردی کا یہ عفریت کتنے گھرمزید اجاڑے گا؟آخر ہم کب تک یونہی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟کیا آگ کے اس دریا کے سامنے بند باندھنے کا وقت نہیں آگیا؟ کیا ضروری نہیں ہوگیا کہ شہریوں کی حفاظت کیلئے جس سیکیورٹی پلان پرعمل کیا جارہا ہے، اسے ازسرِنو تشکیل دیا جائے؟ کیا اب موقع آنہیں گیا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اختیار کی جانے والی حکمت عملی کا پھر سے جائزہ لیا جائے اورایسی منزل کا انتخاب کیا جائے، جس کا راستہ کسی مقتل سے ہوکر نہ گزرتا ہو؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے چہرے پر بے داغ سبزے کی بہار کب نظر آئے گی اور وطن عزیز کے چپے چپے پر لگے خون کے دھبے کتنی برساتوں کے بعد دھلیں گے؟کیا ہر محب وطن عوام کی آنکھوں میں لگی آنسووں کی جھڑی ان دھبوں کو دھو نے کیلئے کافی ہوسکتی ہے ؟دہشت گردی کے اس واقعے کے بعدپورے ملک میں سوگ کی کیفیت تھی،ہر دل خون کے آنسو رو رہا تھاکہ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کا آخر قصور کیا تھا؟ اایک سوال یہ بھی ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو کیا صرف ایک دہشت گردی کے واقعے کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے یا پھر اِسے فرقہ واریت اور المناک ٹریفک حادثات کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے؟ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ شاہرات پر پیش آنے والے حادثے جن وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں، کیا یہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے، ذرا سوچیں کہ یہ خیر پور حادثے کے دہشت گرد کون ہیں؟  لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں درپیش ’’امن و امان‘‘ کے ان مسائل کا حل کیا ہے؟ آخر علاج کیا ہے اِس بیماری کا جو ہمارے معاشرے کی نس نس میں بس چکی ہے؟توجواب یہ ہے کہ فرقہ واریت، لسانیت، شدت پسندی اور دہشت گردی سمیت تمام سانحات اور حادثات کا تریاق بھی اُسی زہر میں پوشیدہ ہے، جو اِس سماج کے رگ و پے میں سرایت کرچکا ہے۔ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ بیروزگاری، مہنگائی اور لاقانونیت جیسے مہلک امراض کا علاج بھی انہی بیماریوں میں چھپا ہے۔ آگے بڑھنے کا فن پیچھے رھ جانے والے ہی سیکھا کرتے ہیں۔چھوٹے منہ والا ’’برما‘‘ ہی بڑے دھانے کا سوراخ کیا کرتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جو ہارتا نہیں، جیتنے کے ذائقے سے بھی ہمیشہ ناآشنا رہتا ہے۔ جو جھکتا نہیں اسے بلند ہونا بھی نہیں آتا اور ہر سوال اپنے اندر جواب لیے ہوتا ہے۔ اس قوم میںبڑی ترقی کرنے، بہت آگے جانے، بلند تر پرواز کرنے، تمام بحرانوں پر قابو پانے، اور ہر مسئلے کو سلجھانے کی پوری ہمت ، صلاحیت، لیاقت، اہلیت اورقابلیت موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تمام کام ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر اور پوری نیک نیتی سے کیے جائیں۔ کھری نیت والے کبھی ناکام نہیں ہوا کرتے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے نیک، صاف اور کھری نیت کی بدولت ہی قیام ِپاکستان کا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ قائد کا یہ کارنامہ آج بھی مشعلِ راہ ہے۔کھری نیت سے آگے تو بڑھیے، آپ کو ہر سوال کا جواب اور ہر مسئلے کا حل مل جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اگرچہ پوری دنیا میں جاری ہے لیکن اس میں کوئی ابہام یا دو رائے نہیں کہ اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ پاکستان میں پچاس ہزار سے زیادہ عام شہری اور سیکیورٹی اداروں کے پانچ ہزار سے زائد جوان اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جبکہ اربوں ڈالر کا معاشی نقصان الگ سے ہے، اس نقصان کا مداوا کرنے میںشاید کئی دہائیاں لگ جائیں، اگر جرمن چانسلر اور چینی صدر پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے ہمیں ملک کے اندر سیکیورٹی مسائل حل کرنے کا کہتے ہیں توکیا ہم امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی بجائے اُلٹا ان کے ساتھ لڑنا شروع کردیں؟ آخر کریں تو کیا کریں؟قارئین کرام!! حقیقت تو یہ ہے آج کی دنیا میں لڑ جھگڑ کر نہیں رہا جاسکتا۔ آج کی دنیا میں دیوار سے لگ کر، منہ بنا کر، روٹھ کر یا ناراض ہوکر جینے کا ارادہ رکھنے والا کسی بھی طور دانشمند نہیں کہلاسکتا، چاہیے تو یہ ہے کہ ہم قومی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے فروغ کے لیے مکمل اتحاد کا مظاہرہ کریں، بالکل اسی طرح جس طرح نائن الیون کے بعد امریکا اور ممبئی حملوں کے بعد بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں نے متحد ہوکر اپنے سیکیورٹی سسٹم میں موجود خامیوں کا جائزہ لیا، اسی طرح ہمیں بھی اپنے سیکیورٹی سسٹم سمیت پورے معاشرتی ڈھانچے کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے واہگہ میں دہشت گردی کے واقعے اور خیرپور میں پیش آنے والے ٹریفک حادثے کے تناظر میں اگر ایک جانب ہمیں سیکیورٹی سسٹم کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے تو دوسری جانب مواصلات کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھی ضرورت ہے، گھوڑوںکی پیٹھ پر سوار ہوکر تلواروں سے جنگیں کرنے کا دور گزر گیا، اب یہ ٹیکنالوجی اورسائنس کا دور ہے۔ یہ لیپ ٹاپ، آئی پیڈاور آئی فون کا دور ہے، اب یہ ریڈار کا نہیں اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔جب تک ہم یہ فرق نہیں سمجھیں گے جگہ جگہ بکھرے واہگے اور خیرپور ہمارا مزاق اُڑاتے رہیں گے۔

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...